گورنمنٹ کالج لاہور کی داستانِ عشق کیا لکھی کہ دنیا بھر سے لوگوں نے یاد کرنا شروع کردیا۔ صبح سویرے سب سے پہلے برادر بزرگ کنور دلشاد کا پیغام ملا کہ اتنے ناموں میں حنیف رامے کا نام کیوں نہیں لکھا؟ شاہین رامے اور شاہد محمود ندیم کو کیسے بھول گئے، ایٹمی پروگرام کے بانی ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری کا نام کیوں نہ لکھ سکے؟ ابھی میں اِس کیوں کا جواب تلاش ہی کررہا تھا کہ کرنل وقار کا پیغام آیا کہ ’’آپ کا بھائی تو کسی دوسرے کالج میں گیا ہی نہیں‘‘ بہت معذرت کہ میں کرنل لالہ سعید کا نام نہ لکھا سکا، کرنل طارق نیازی، بریگیڈئیر عدیل منہاس اور کرنل بلال وڑائچ کے نام رہ گئے۔ پرانے ناموں کو یاد کروں تو پھر اپنے پیارے انور عزیز چوہدری کا نام بھی راوینز کی فہرست میں پہلی صف میں ہے۔ سراج منیر بھی ہیں اور اپنے پیارے ڈاکٹر اجمل نیازی جو ’’راوی‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھاتے بھی رہے۔ پڑھانے والوں میں بھی کئی عظیم نام ہیں، پروفیسر پطرس بخاری، صوفی تبسم، مشکور حسین یاد، ڈاکٹر نذیر احمد، اشفاق حسین شاہ، اصغر ندیم سید، ڈاکٹر سعادت سعید، شعیب ہاشمی، پروفیسر ظہیر صدیقی، ڈاکٹر اقبال شاہد، خالد بیگ، مرزا اطہر بیگ، عباس نجمی، عابد تہامی، صائمہ ارم اور ڈاکٹر غزالہ یاسمین بٹ سمیت بہت سے نام ہیں، اگر چند برس پرانے ’’راوی‘‘ دیکھوں تو پھر عباس تابش، ظہور احمد، حسن رضا گوندل، ڈاکٹر خالد سنجرانی، فاطمہ ضیا ڈار اور کئی دوسرے نام ہیں، کالج گزٹ کو یاد کیا جائے تو پھر محمد اختر، دانیال سلیم گیلانی، فرخ اعوان، اطہر تسنیم صدیقی اور مجتبیٰ جمال کے نام کیسے نظر انداز کئے جا سکتے ہیں۔ انفارمیشن گروپ کے رائو تحسین علی خان اوکاڑوی، محمد سلیم بیگ کے علاوہ حمزہ گیلانی سمیت کئی لوگ ہیں، شاہد رفیع کو کون بھول سکتا ہے۔ بیوروکریسی پر نظر ڈالیں تو پھر جواد پال، عامر احمد علی، جاوید جہانگیر، تفاخر علی اسدی، فیض علی فیضی، ملک ہارون، ثاقب سلطان اپنے بھاہ نسیم راشد، محمود بھٹی، سید بلال حیدر، راشد محمود لنگڑیال،وقاص احمد برلاس، اشفاق احمد خان، آفتاب عالم، راجہ فخر سلطان وصال، علی محسن شاہ کے علاوہ جپہ بردران کو کیسے بھولا جاسکتا ہے۔ ملک مبشر خان، اشتیاق گل اور طلعت گوندل ہمیشہ یاد رہتے ہیں، جواد ڈوگر اور سرفراز فلکی بھی پولیس سروس میں ہیں اور بھی بہت سے راوینز ہیں، محمد علی نیکوکارا سب کو یاد ہے، اِسی طرح خرم شہزاد وڑائچ اور ملک سکندریہ نام سب یاد ہیں مگر میں نے اُس دن بھی لکھا تھا کہ اگر نام لکھنا شروع کروں تو کئی ایک کتابیں لکھنا پڑیں گی۔ وسیم باجوہ اور فخر چیمہ بھی تو اپنے دوستوں میں سے ہیں، انمول شریف کے گیلانی برادران بھی آج تک یاد ہیں۔ گلریز گوندل، اویس دریشک، راجہ اسد، خوش اختر سبحانی، ابو طاہر بندیشہ یہ سب یاد ہیں۔ سینئر مسلم لیگی رہنما راجہ ظفر الحق بھی یاد ہیں۔
لاہور کی ادبی تقریبات کی رونق نواز کھرل لکھتے ہیں ’’میں گورنمنٹ کالج لاہور کو درسگاہ نہیں، درگاہ سمجھتا ہوں، ہم نے بھی اِسی مادرِ علمی کی رومانوی اور جمالیاتی فضا میں چار سال گزارے ہیں اور یہ چار سال زندگی کا یادگار ترین دور تھا‘‘۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی پرکشش فضا کو ہرکوئی یاد کرتا ہے، ہاکی کے کھلاڑی قمر رضا کا بھی پیغام ملا، اُن کا نام بھی رہ گیا تھا، شہباز کسانہ کا بھی وہی مقدمہ ہے کہ اُس کا نام جی سی یو نہیں بلکہ گورنمنٹ کالج لاہور ہی ہونا چاہئے، کچھ ناموں کا تذکرہ نہ کرنے پر اعظم ڈار نے تو مجھے ظالم ہی قرار دے دیا تو صاحب پھر اعظم ملک اور محترمہ راشدہ کامل کا ذکر بھی کردیتے ہیں، پھر بلال صدیق کمیانہ، شفقت قادر سکھیرا، شازیہ امیر لنگڑیال، ثنیہ صہبائی اور سمیرا شیخ کا تذکرہ بھی کردیتے ہیں۔ سرفراز ورک، فیصل بٹر، رانا شہزاد اقبال اور سرفراز چیمہ کا ذکر بھی کردیتے ہیں۔
اور ہاں میرے شعبے میں بھی کچھ نام رہ گئے تھے۔ اسد اللہ غالب، ضمیر حیدر، رحمٰن اظہر اور پروفیسر اصغر چیمہ کے علاوہ عبدالرئوف اور اپنے جیو کے رانا جواد، اگر میں نے فریحہ ادریس کا ذکر نہ کیا تو ریحان افضل خان یہ نام ضرور یاد کروا دیں گے۔ راوین عامر متین کی محفلیں ہمیشہ یادگار ہوتی ہیں، لمبی بحث، گفتگو اور چاشنی، اپنے یاور بخاری بھی تو صحافی ہیں۔
اب اگر کسی کا تذکرہ نہ ہوسکا ہو تو معذرت، مجھے کچھ سیاست پر بھی لکھنا ہے، ورنہ عباس گھرکی، ملک فاروق اور مختار قریشی کے قصے کہاں تمام ہوتے ہیں۔ راجہ عظیم نے بھی ایک جہاں آباد کر رکھا ہے۔ کیپٹن آصف بھٹی اور نوید واڑئچ کی اپنی داستانیں ہیں۔ ایک وضاحت اسلم بھٹی نے کی ہے، اُن کا کہنا ہے کہ ’’اولڈ راوینز کی دو تنظیمیں ہیں، ایک اولڈ راوینز یونین ہے جس کے الیکشن ہوتے ہیں اور دوسری اولڈ راوینز ایسوسی ایشن ہے جس کے بانی اور تاحیات سیکرٹری شہباز احمد شیخ ہیں۔ ایسوسی ایشن کا الیکشن ہی نہیں ہوتا لہٰذا ہار جیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘، اگر اُن دونوں کو سیاسی نظام کی آنکھ سے دیکھا جائے تو اولڈ راوینز یونین جمہوریت کی علامت ہے جبکہ اولڈ راوینز ایسوسی ایشن بادشاہت کی۔
دو روز گزر گئے جب اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں پی ٹی آئی کے یومِ تاسیس پر مرکزی تقریب ہوئی تھی، اُس کی گونج ابھی تک باقی ہے اور شاید بہت دیر تک رہے۔ اُس کا اہتمام ورکرز کے دوست اور پارٹی کے چیف آرگنائزر سیف اللہ خان نیازی نے کیا تھا، یہاں کئی پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ اعجاز چوہدری، عمر سرفراز چیمہ، غلام سرور خان اور جمشید اقبال چیمہ سمیت بہت سے شناسا چہرے تھے۔ اُس تقریب میں عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی کی معذروری دیکھ کر دکھ ہوا۔ وہ دوست بھی ہے، بھائی بھی ہے۔ ارشد داد کی منشورانہ باتیں، شاہ محمود کی ادائیں اور پھر فیصل جاوید کی گرما دینے والی آواز۔ پیر نورالحق قادری کی من موہ لینے والی تلاوت قرآن پاک۔ اُس روز حسب روایت وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو خوب لتاڑا، پھر سے کہا کہ کسی کو این آر او نہیں ملے گا۔ اپوزیشن والے مسلسل کہتے ہیں کہ این آر او مانگ کون رہا ہے؟ جواباً وزیراعظم کہتے ہیں کسی کو بھی این آر او نہیں ملے گا۔ لوگ کیا جانیں، یہی کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ خیر یومِ تاسیس پر عمران خان نے اپنے دس اصلاحاتی نکات بھی پیش کئے، اگر وہ صرف غربت مٹانے والے نکتے کو پورا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر اُن کے راستے کوئی نہیں روک سکتا۔ اُنہیں احساس ہے، لوگوں کا بھرپور احساس ہے، مہنگائی کا بھی احساس ہے اِسی لئے تو وہ ’’احساس‘‘ کے نام سے پروگرام شروع کررہے ہیں۔ اُنہوں نے حاضرین کو دل کھول کر بتایا کہ وہ ہمیشہ سرکارِ مدینہﷺ کی زندگی سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ مشکل سے مشکل ترین حالات میں بھی وہ اپنے نبی کریمﷺ کی زندگی سے سبق حاصل کرتے ہیں، وزیراعظم نے ریاست مدینہ کے احساس کو بھی یاد کیا۔ چلو اِسی احساس میں پھر اقبالؒ کے اُس شعر کو یاد کرتے ہیں جو اعظم سواتی نے سیالکوٹ میں دہرایا تھا کہ؎
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں
بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو
خدا کے بندوں سے پیار ہوگا