لاہور (ویب ڈیسک) حسب توقع نیب نے چودھری برادران کے خلاف پلاٹوں کی الاٹمنٹ والا کیس بند کر دیا ہے۔ اس سے پہلے خبریں آئی تھیں کہ حکومتی اتحادیوں میں قاف لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان پیدا ہونے والی دوریاں دور ہو رہی ہیں۔ بلکہ بڑی حد تک دورہو گئی تھیں۔ تبھی یہ توقع بندھی تھی کہ نامور کالم نگار عبداللہ طارق سہیل اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ریفرنس کی فائل بندہونے والی ہے۔ ماشاء اللہ الحمد اللہ۔ دو اتحادیوں کے درمیان مفاہمت کا پائیدار عمل تقریباً مکمل ہو گیا۔ ٭٭٭٭٭ بالآخر مہمند ڈیم کا سنگ بنیاد رکھنے کی گھڑی آ گئی۔ یہی وہی ڈیم ہے ناں جس کی تعمیر کا ٹھیکہ سیٹھ رزاق دائود کو مبلغ تین ارب روپے میں دیا گیا تھا۔ ڈیم تو سمجھئے بن گیا۔ پچاس لاکھ مکان بھی تعمیر ہو چکے سمجھو۔ مبارک ہو۔ ان کے ساتھ اور بھی بہت سے لوگوں کے بھاگ جاگ اٹھے ہوں گے کہ ہاتھی کے پائوں میں کئی اور کے پائوں بھی تو ہواکرتے ہیں۔ سنگ بنیاد والی خبر مشیر اطلاعات فردوس صاحبہ نے وزیر واوڈاصاحب کی ہمراہی میں دی۔ وہی واوڈا صاحب جنہوں نے چند ہفتے پہلے ایک ڈیڈ لائن دی تھی کہ اس کے بعد کروڑوں اربوں نوکریوں کا سیلاب آنے والا ہے۔ وہ ڈیڈ لائن گزر گئی۔ نوکریوں کے سیلاب کا کیا بنا؟ چلیے چھوڑیے‘ رات گئی بات گئی۔ واوڈا صاحب نے دس بارہ دن پہلے اپنی ہی حکومت کے ایک گورنر صاحب کے بارے میں یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ ڈیم فنڈ میں سے دس کروڑ روپے گول کر گئے۔ اس خبر کے بعد کیا ہوا؟ چلیے اسے بھی چھوڑیے۔ رات گئی تو یہ بات بھی گئی۔ ٭٭٭٭٭ پریس کانفرنس میں مشیرہ صاحبہ نے بتایا کہ حکومتی اقدامات کے ثمرات عوام کو ضرور ملیں گے۔ کیا مطلب‘ ابھی مزید ثمرات ملنے ہیں؟ اللہ رحم فرما۔ قوم تو پہلے ہی ثمرات سے۔’’اوورڈوزڈ‘‘ ہو چکی۔ ٭٭٭٭٭ خضدار میں خطاب کرتے ہوئے بی این پی‘ حکومتی اتحادی جماعت کے سربراہ اختر مینگل نے ایک نوحہ پڑھا ہے۔ نوحہ ناقابل نقل ہے۔ کچھ لاپتہ افراد کا ذکر کیا۔ کچھ لاوارث قوتوں کا ماتم کیا اور جو قدرے قابل اشاعت بات کی وہ یہ تھی کہ اسلام آباد میں ہماری کوئی نہیں سنتا۔ مصنوعی پارٹیاں بنا کر جعلی میڈیٹ سے اقتدار دیا گیا۔ بلوچستان کے حالات پہلے سے زیادہ خراب ہیں۔ جام کمال کی حکومت منجمد حکومت ہے۔ اتنے سارے راز مینگل صاحب پر اکٹھے ہی کھل گئے؟ بہرحال کھلتے کھلتے آٹھ مہینے بھی تو لگے۔ یاد آیا‘ سال بھر پہلے جب موجودہ کہانی کی بنیاد سنجرانی ماڈل کی شکل میں رکھی گئی تھی۔ مینگل صاحب بھی کہانی کاروں کے شانہ بشانہ ہی تھے ناں؟ اور اب بھی شانہ ہٹایا تو نہیں ہے۔ جام کمال کی حکومت بلوچستان میں منجمد ہے تو پنجاب میں بھی بزدار کی حکومت نقطہ انجماد پر ہے بلکہ کچھ پیچھے ہی۔ کیوں نہ بحر منجمد شمالی اور جنوبی کی طرح ہم بھی صوبوں کے ایسے ہی نام رکھ دیں۔ پنجاب کا نام صوبہ منجمد شمالی‘ بلوچستان کا صوبہ منجمد جنوبی۔ مینگل صاحب ‘ آپ کے ساتھ تب بھی شاید یہی ہوتا جو اب ہو رہا ہے اگر آپ شانہ بشانہ ہونے کا ’’ثواب بے لذت‘‘ نہ کماتے ٭٭٭٭٭ آئی ایم ایف نے رواں سال کے لئے پاکستان کے معاشی گروتھ ریٹ کا تخمینہ 2.9فیصد لگایا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ چند مہینے پہلے اسی آئی ایم ایف کا تخمینہ ساڑھے تین فیصد سے زیادہ تھا۔ یکدم اتنی کمی شاید اس کے ہونہار وزیر خزانہ لگانے کے بعد کی ہے۔ ساڑھے تین فیصد سے زیادہ والا تخمینہ مستعفی ہونے والے غیر ہونہار بروے کو دیکھتے ہوئے لگایا گیا تھا۔ یہ تو حیرت والی بات تھی۔ دلچسپی والی بات یہ ہے کہ زرداری صاحب کی حکومت میں بھی یہی ہونہار صاحب وزیر خزانہ تھے اور تب ان کی بدولت گروتھ ریٹ نے اڑھائی فیصد کا عالمی ریکارڈ بنایا تھا۔ جب زرداری صاحب نے ان حضور کو وزیر خزانہ لگانے کا فیصلہ کیا تو پیپلز پارٹی کے ایک ہمدرد تجزیہ نگار نے کسی انگریزی اخبار میں لکھا تھا کہ موصوف مشرف کے وزیر خزانہ کے طور پرمعیشت کی گراوٹ کا سبب بن چکے ہیں۔ اس فیصلے پر پھر غور کر لیا جائے لیکن غور نہیں کیا گیا اور معیشت کی حالت غیر ہو گئی۔ بعد میں اسحاق ڈار نے گروتھ ریٹ کے آس پاس پہنچا دیا جسے اسد عمر نے 4فیصد کر دیا‘ اب موصوف پھر آ گئے۔ ہونہاربردے کی دو ہی صلاحیتیں ہیں ایک گروتھ ریٹ کم کرنا اور معیشت کو آکسیجن ٹینٹ میں لے جانا۔ دوسری غریب کوغریب تر‘ امیر کو امیر تر کرنا۔ عمران کی حکومت اشرافیہ کی حکومت مانی جاتی ہے۔ اغلب ہے کہ انہیں خصوصی طور پر دوسری خوبی کی وجہ سے لایا گیا۔ کیا عجب کل کلاں لو لگنے کا علاج۔ یہ دریافت ہو کہ انڈے کھا کردھوپ میں بیٹھ جائو اور سردیوں میں کھانسنے کا علاج۔ یہ تجویزہو کہ ٹھنڈے پانی سے نہا کر کھلے آسمان تلے برف کے بلاک پر بیٹھ جائو۔ ٭٭٭٭٭ بلا شبہ بہت زیادہ مہنگائی ہو گئی ہے لیکن اتنی نہیں جتنی دہائی ہے۔ ابھی کی بات ہے۔ ایک روزنامے نے جلی سرخیوں کے ساتھ خبر چھاپی کہ رمضان سے قبل ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 133فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ بہت تشویش ہوئی۔ مارکیٹ جا کر چیک کیا تو پتہ چلا رپورٹ ٹھیک نہیں‘ مبالغہ کیا گیا ہے۔ قیمتوں میں صرف 132فیصد اضافہ ہوا ہے۔ الحمد للہ ‘ بہت اطمینان ہوا۔