لاہور (ویب ڈیسک) فواد چودھری تو خواہ مخواہ بدنام ہوئے۔حقیقت مگر یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان بذاتِ خود شہباز شریف کو کسی صورت قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین منتخب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔اس ضمن میں ’’دودھ کی رکھوالی کے لئے بلے کی تعیناتی‘‘ والی سوچ ان کی دین تھی۔ نامور کالم نگار نصرت جاوید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کو مگر یہ دریافت کرنے میں دیر نہ لگی کہ اگر شہباز شریف کو اس کمیٹی کی قیادت نہ ملی تو 88اراکین پر مشتمل پاکستان مسلم لیگ (نون) قومی اسمبلی کو چلنے نہیں دے گی۔مسلسل شوروغوغا برپا رہے گا۔ اسمبلی کو وقار مہیا کرنے کے لئے یہ تعیناتی کرنا ضروری ہے۔ایک جہاندیدہ سیاست دان ہوتے ہوئے پرویز خٹک نے اسد قیصر کی حمایت کی۔یہ دونوں اپنے تئیں وزیر اعظم کو قائل نہ کر پائے تو شاہ محمود قریشی کی فراست سے رجوع کرنا پڑا۔ ان تینوں نے یکجا ہوکر بالآخر عمران خان کو شہباز شریف کی تعیناتی پر رضا مند کرلیا۔میاں شہباز شریف کی بطور چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی تعیناتی نے تحریک انصاف کے جذباتی کارکنوں کی بے پناہ اکثریت کو بہت مایوس کیا۔ ٹی وی سکرینوں پر فواد چودھری اور عامر کیانی اس مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی صفوں میں انتشار کا تاثر دیتے رہے۔ نیب والے بھی حیران وپریشان ہوگئے۔ سابق وزیر اعلیٰ کرپشن کے الزامات میں اس کے ہاتھوں گرفتار ہوئے تو سپیکر کے جاری کردہ پروڈکشن آرڈر کی وجہ سے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کے لئے اسلام آباد آتے رہے۔ چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی تعینات ہونے کے بعد انہیں اسلام آباد کی منسٹرز کالونی میں ایک مکان بھی الاٹ ہوگیا۔ اسے شہباز شریف کے نیب کی حراست میں ہونے کی وجہ سے ’’سب جیل‘‘ ڈیکلیئر کرنا پڑا۔ اس ’’جیل‘‘ سے شہباز شریف مگر پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس طلب کرلیتے۔ ان اجلاسوں کی صدارت کے لئے پارلیمان ہائوس آنا ان کا ’’حق‘‘ تھا۔ نیب اس کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی تھی۔عدالتیں بھی پارلیمانی روایت واصولوں کا احترام کرتی رہیں۔نیب کی ’’حراست‘‘ میں ہوتے ہوئے بھی شہباز شریف کی بطور چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی ’’آنیاں جانیاں‘‘ اگرچہ تحریک انصاف کی Core Constituency کے سینوں پر مونگ دلتی رہیں۔ راولپنڈی کے بقراطِ عصر زچ ہوکر یہ دھمکی دیتے رہے کہ وہ عدالتوں سے رجوع کرنے کو مجبور ہورہے ہیں۔ عدالت سے استدعا ہوگی کہ نیب جیسے اداروں کی حراست سے قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے اراکین کی اس ادارے کے اجلاس کے دوران موجودگی والے قانون کو خلاف آئین قرار دیا جائے۔قانون سب کے لئے برابر والے اصول کا کامل اطلاق ہو۔ لاہور ہائیکوٹ نے مگر بقراطِ عصر کے اس ضمن میں حرکت میں آنے سے قبل ہی شہباز شریف کو ضمانت پر رہا کردیا۔مجھ سادہ لوح کو کامل یقین تھا کہ اپنی Hands Onشہرت کو شہباز شریف صاحب بطور چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی حکومتی اداروں میں جاری کوتا ہیوں اور بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے کے لئے بھرپور انداز میں بروئے کار لائیں گے۔ ایسا مگر ہو نہیں پایا۔ ضمانت پر رہا ہونے کے بعد شہباز صاحب نے بلکہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شریک ہونابھی چھوڑ دیا۔ حتیٰ کہ وہ بطور قائد حزب اختلاف اسد عمر کے متعارف کردہ دوسرے منی بجٹ پر عمومی بحث کا آغاز کرنے بھی تشریف نہ لائے۔ان کی جگہ یہ فریضہ بلاول بھٹو زرداری نے نبھایا۔ اسد عمر کے دئیے پیکیج پر صرف ایک روز بحث ہوسکی۔ مختصر بحث کے بعد وہ پیکیج جھٹ پٹ منظور ہوگیا۔خلقِ خدا کو اس عجلت کی وجہ سے علم ہی نہ ہوپایا کہ ’’معیشت کو بحال کرنے‘‘ کے نام پر سابق وزیر خزانہ نے کونسے معاشی ’’مافیاز‘‘ کو نوازا تھا۔ضمانت پر رہائی کے بعد شہباز شریف پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بھی بھول گئے۔ اس کے چیئرمین کی حیثیت سے انہیں پارلیمان کی عمارت میں ’’وزیروں‘‘ والا جو کمرہ ملا اسے کمال فیاضی سے انہوں نے اب بلاول بھٹو زرداری کو ’’دان‘‘ کردیا ہے۔ خود لندن جاچکے ہیں۔ان کی جماعت کا کوئی ایک فرد بھی مجھے نہیں بتارہا کہ وہ وطن کب لوٹیں گے۔ ان کی عدم موجودگی میں پبلک اکائونٹس کمیٹی عملاََ کالعدم ہوچکی ہے۔حالانکہ حقیقی پارلیمان میں اس کمیٹی کو سب سے زیادہ متحرک ہونا چاہیے۔یہ کمیٹی ا پنے فرائض یکسوئی سے نبھائے تو یقین مانیے ہمیں سرکاری اداروں میں بدعنوانی کو روکنے کے لئے کسی نیب حتیٰ کہ ایف آئی اے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔میں یہ دعویٰ 1985سے 1988تک کام کرنے والی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی کارروائی کو مسلسل رپورٹ کرنے سے حاصل ہوئے تجربات کی وجہ سے کررہا ہوں۔ان دنوں جھنگ کے محمد علی اس کے سربراہ ہوا کرتے تھے۔قصور کے سردار آصف احمد علی اس کمیٹی کے ایک متحرک رکن تھے۔ان دونوں نے باہم مل کر کئی ایسے بینکاروں اور جہازوں کے ذریعے تجارت کے اجارہ داروں کی زندگی اجیرن بنادی جو اس وقت کے باوردی صدر جنرل ضیاء کے بہت چہیتے شمار ہوتے تھے۔غلام اسحاق خان جیسے مہا بیورو کریٹ بھی اس کمیٹی سے بہت ناراض رہے۔ ان کا اصرار رہا کہ مذکورہ کمیٹی سرکاری افسروں میں خوف وہراس کی وہی کیفیت پیدا کررہی ہے جس کا الزام ان دنوں کے نیب پر لگ رہا ہے۔قومی اسمبلی کی کارروائی اور اس کی پبلک اکائونٹس کمیٹی سے لاتعلق ہوکر شہباز شریف مجھ جیسے لوگوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ان جیسے سیاست دان منتخب اداروں کو فقط اپنی ذاتی آسانی اور سہولت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔نیب سے رہائی نصیب ہو جائے تو انہیں نہ قومی اسمبلی کا اجلاس یاد رہتا ہے نہ اس کی پبلک اکائونٹس کمیٹی جس کا بنیادی فریضہ ہی سرکاری اداروں کی کارکردگی پر کڑی نگاہ رکھنا ہے۔ایسے رویے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والا نعرہ بھی مکمل طورپر کھوکھلا سنائی دیتا ہے۔اگر قومی اسمبلی کا قائدِ حزب اختلاف اور اس کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین اپنے منصب سے انصاف کرتا نظر نہ آئے توگلی محلوں میں بکھری خلقِ خدا جمہوری نظام کی قدر کیوں کرے؟ پارلیمانی نظام کی ادفادیت کا احساس اس کے دل میں اسی صورت جاگزیں ہوسکتا ہے اگر ان دو عہدوں کی وساطت سے ہم دریافت کرسکتے کہ Slabsکے نام پر تین ماہ لوگوں نے سوئی گیس کے ہوشربا بل کیوں وصول کئے۔ادویات کی قیمت میں راتوں رات سوسے تین سو فی صد اضافہ کیوں ہوا اور واضح حکومتی اعلانات کے باوجود ان دونوں مدوں میں عوام کو ریلیف کیوں نہ مل پایا۔شہبازشریف اگر ہمارے دلوں میں اُبلتے سوالات کے جوابات حکومت سے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں طلب کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے تو انہیں قائدِ حزب اختلاف کا عہدہ لینے سے بھی اجتناب برتنا چاہیے تھا۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی بھی کسی اور کے حوالے کردیتے تو شاید بہتوں کا بھلا ہوجاتا۔