لاہور (ویب ڈیسک) بین الاقوامی و غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس واچ کی حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں پاکستان سے لڑکیوں کو چین ٹریفک کرنے کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پیش آنے والے واقعات ایشیا کے پانچ اور ممالک سے مماثلت رکھتے ہیں۔ نامور خاتون صحافی سحر بلوچ بی بی سی کے لیے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔’میں فیصل آباد سے ہوں، میری عمر 19 سال ہے۔ یہ نومبر 2018 کی بات ہے۔ ہم لوگ اپنی کزن کی شادی میں گئے تھے، کزن کی شادی بھی ایک چینی لڑکے سے ہوئی تھی اور اب وہ چین میں ہے۔ وہیں مجھے بھی پسند کیا گیا اور رشتہ داروں سے میرے گھر والوں کا نمبر لیا گیا۔ کال کر کے وہ لوگ ہمارے گھر آئے۔ مجھے تین لڑکے دیکھنے آئے تھے۔‘ میرے گھر والوں کا پہلا سوال تھا کہ کیا لڑکا مسیحی ہے؟ تو ہمیں بتایا گیا کہ جی، مسیحی ہے، کوئی فراڈ نہیں ہے۔ لیکن ہمیں اتنا وقت نہیں دیا گیا۔ ہمارے گھر آنے کے اگلے دن ہی مجھے میڈیکل ٹیسٹ کے لیے لاہور بھیجا گیا۔ میڈیکل ٹیسٹ کروانے کے دو دن بعد انھوں نے کہا کہ ہمیں شادی کرنی ہے۔ گھر والوں نے کہا کہ ہم اتنی جلدی شادی نہیں کرنا چاہتے۔ مگر چینی لڑکے کے ساتھ منسلک جو پاکستانی نمائندہ تھا اس نے کہا کہ نہیں، جو ہوگا اسی ماہ ہوگا کیوں کہ اس کے بعد چینی لوگوں نے چلے جانا ہے اور پھر یہ واپس نہیں آئیں گے۔ تو اگر (شادی) کرنی ہے تو ابھی کرنی ہے۔ انھوں نے ہمیں کہا کہ ہم آپ کا سارا خرچہ اٹھائیں گے۔ میرے گھر والوں نے کہا کہ ہمیں نہیں چاہیے۔ تو انھوں نے کہا کہ نہیں جیسے پاکستان میں ہوتا ہے کہ لڑکے والے لڑکی کو شادی کا خرچہ دیتے ہیں، لڑکی کے کپڑے بنوانے کے لیے، ویسے ہی ہوگا۔ میرے گھر والوں نے اپنے رشتہ داروں کا تجربہ دیکھتے ہوئے شادی کے لیے ہاں کردی اور میری شادی کردی گئی۔ جب تک میرے سفر کے کاغذات بن رہے تھے تب تک انھوں نے مجھے سات لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ ایک گھر میں رکھا تھا۔ انھوں نے لاہور کے ڈیوائن روڈ پر ایک گھر لے رکھا تھا۔ کل تین گھر تھے، دو ایک ہی گلی میں تھے اور ایک دو گلیاں چھوڑ کے تھا۔ وہاں پر سب چینی ہی چینی تھے۔ آخری شادی میری ہوئی تھی باقی سات لڑکیوں کی مجھ سے پہلے شادی ہوچکی تھی۔ سب مسیحی لڑکیاں تھیں۔ میں اپنے شوہر سے گُوگل ٹرانسلیٹر کے ذریعے بات کرتی تھی۔ کبھی ترجمہ صحیح ہوجاتا تھا کبھی نہیں ہوتا تھا۔ ایک استاد بھی رکھے ہوئے تھے۔ ہم سب لڑکیوں کی (چینی زبان سیکھنے کی) کلاس ہوتی تھی صبح 9 سے شام 5 بجے تک۔ چینی لوگوں کے ساتھ جو پاکستانی نمائندہ آیا تھا وہ بہت تیز تھا۔ (اس کو لڑکیوں کی ذمہ داری سونپی گئی تھی) اس کی زبان لڑکیوں کے ساتھ اچھی نہیں تھی۔ گالی گلوچ کرتا تھا۔ اگر کسی لڑکی نے کہا کہ مجھے گھر واپس جانا ہے تو وہ بہت گندے گندے الزام لگاتا تھا، بلیک میل کرتا تھا۔ جس لڑکے سے میری شادی ہوئی میں اس سے صرف تین بار ملی تھی۔ پہلی بار جب وہ مجھے دیکھنے آیا تھا، دوسری بار مہندی میں دیکھا اور پھر نکاح کے روز ملاقات ہوئی۔ لڑکے کی عمر 21 برس تھی اور شادی کے بعد مجھے پتا چلا کہ وہ ہاتھ سے معذور ہے اور مسیحی نہیں ہے۔ جب میں نے نمائندے کو بتایا تو وہ مجھے بلیک میل کرنے لگ گیا۔ کہنے لگا کہ میں نے جو (شادی) ہال پر پیسے لگائے ہیں، میں وہ لوں گا۔ تم لوگوں کے خلاف رپورٹ کروں گا، تم لوگوں نے چینی باشندوں کو دھوکا دیا ہے۔ ایسے بولتا تھا۔ پھر اس نے میرا موبائل فون لے لیا۔ ہم سب لڑکیوں کے موبائل فون چیک ہوتے تھے۔ وہاں رہتے ہوئے میری اپنی باقی دوستوں سے بھی بات ہوتی تھی جو چین گئی تھیں۔ ایک نے مجھے بتایا کہ یہاں کھانے کے لیے سادہ چاول دیتے ہیں اور ایک کمرے میں بند رکھتے ہیں۔ شام کو شوہر اپنے دوستوں کو گھر لاتا ہے۔ صرف یہی بتایا۔ مجھے سمجھ آچکا تھا کہ اس کہ ساتھ وہاں کیا ہورہا ہے۔ وہ بہت رو رہی تھی۔ میرے کاغذات بن چکے تھے تب تک صرف ویزا آنا باقی رہ گیا تھا۔ مجھے گھر نہیں جانے دیتے تھے۔ میں نے کہا کہ میری ماما کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ تو کہنے لگا کہ تمھاری ماما کو یہاں بلالیں گے، یہیں علاج کروالیں گے، تم نے کہیں نہیں جانا۔ بڑی مشکل سے گھر والوں کے ساتھ رابطہ ہوا۔ میرے گھر والے مجھے لینے آئے اور پھر میں واپس نہیں آئی۔ میرے گھر والوں نے کہا کہ اب تمھارا جو دل چاہتا ہے تم وہ کرو۔ میں نے سوچا ہے کے میں پارلر کا کام جانتی ہوں تو میں وہ کرلوں گی۔ مجھے اب ڈر نہیں لگتا، بس یہ ہے کہ دوسری لڑکیاں بچ جائیں۔ جن کو (اس بارے میں) نہیں پتا وہ شادی نہ کریں۔‘ لاہور کے ڈیوائن روڈ اور ایڈن گارڈن کے علاقوں میں ایک لائن میں گھر بنے ہیں جن میں چینی باشندے رہتے ہیں جو کام کی غرض سے مختلف کمپنیوں سے منسلک ہیں۔ ان میں سے چند چینی ایسے بھی ہیں جو پاکستان کی چین کی جانب نرم ویزا پالیسی کے نتیجے میں تھوک کے حساب سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔ یہ کیا کام کرتے ہیں، بہت سے لوگ نہیں جانتے۔انسانی حقوق پر کام کرنے والے کارکنوں کے مطابق پچھلے ایک سال سے پاکستان کے صوبے پنجاب میں چینی باشندے شادی کی غرض سے آرہے ہیں اور لڑکیوں کو شادی کرکے چین لے جارہے ہیں۔ لاہور میں مقیم سماجی کارکن سلیم اقبال کے مطابق یہ شادیاں نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر جسم فروشی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ’میں نے اب تک پولیس، ایف آئی اے اور دیگر سکیورٹی اداروں کو مطلع کیا ہے۔ ایک سال بعد جا کر جب مسلمان لڑکیوں کے ساتھ واقعات پش آنا شروع ہوئے تب جا کر ان معاملات کے خلاف کارروائی کی گئی۔‘ سلیم نے بتایا کہ پہلے چند ماہ تک گوجرانوالہ اور نواحی علاقوں میں رسالوں اور بینرز کے ذریعے چینی باشندوں کے بارے میں اطلاعات عام کی گیں۔ ’کچھ کیسز میں تو والدین کو سمجھ آ گیا اور انھوں نے اپنی بیٹیوں کو واپس بلوا لیا۔ لیکن بہت سے اور کیسز میں، نہایت ہی غریب لوگوں کو 3 سے 4 لاکھ دے کر ان کی بیٹیوں سے شادی کی گئی۔‘ سلیم کے مطابق ایک سال کے عرصے میں لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان سے 700 شادیاں کروائی جا چکی ہیں۔ جن میں اکثریت مسیحی لڑکیوں کی ہے۔ یہ بات ذرائع ابلاغ میں تب سامنے آئی جب پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک مسلمان لڑکی کا کیس سامنے آیا۔ جس پر ایک مذہبی جماعت نے کافی شوروغل کیا۔ عرفان مصطفیٰ پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں اور پچھلے چار ماہ سے پنجاب کے مختلف علاقوں میں دس کے قریب شادیاں کرواچکے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے ہر ایک شادی بہت دیکھ بھال کر کروائی ہے۔ اور یہ شادیاں عدالتوں کے ذریعے ہوئی ہیں۔ جن میں لڑکی اور لڑکے کو پیش کیا جاتا ہے۔` عرفان نے چینی باشندوں سے شادی کروانے کے بعد چین میں لڑکیوں سے جسم فروشی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ میڈیا کی پھیلائی ہوئی باتیں ہیں۔ سچائی اس کے برعکس ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ایسا ہر شادی میں ہوتا ہے۔ ’کئی بار شادی کرنے کے بعد خیالات نہیں ملتے جس کی وجہ سے میاں بیوی میں چپقلش پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ تو اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ شادی زبردستی کی گئی ہے۔‘ ساتھ ہی انھوں نے پوچھا کہ ’کیا ایسا ہوسکتا ہے کے ایک ملک سے دوسرے ملک لڑکیاں ٹریفک کی جارہی ہوں اور مقامی ایجنسیوں کو خبر تک نہ ہو؟ ایجینسیاں جانتی ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔‘ لیکن حال ہی میں لاہور کے مختلف علاقوں نادرآباد، بٹ چوک، ڈیوائن روڈ سے آٹھ لڑکیوں نے متعلقہ تھانوں میں درخواستیں جمع کروائی ہیں۔ ان درخواستوں میں سے ایک فرح ظفر کے نام سے درج ہے جس نے اپنی والدہ اور ایک شادی کروانے والے ادارے میں کام کرنے والے شخص پر الزام لگایا ہے کہ اس کی شادی پیسوں کے عوض زبردستی کروائی گئی تھی۔ ان درخواستوں میں لاہور کے کچہری کے علاقے سے درج ایک رپورٹ میں ایک لڑکی نے اپنے چینی خاوند پر تشدد کا الزام لگاتے ہوئے عدالت میں خُلع کی استدعا کی ہے۔ کچھ لڑکیوں نے درج شکایات میں لکھا کہ ان سے کہا گیا کہ لڑکا ’سی پیک میں ملازم ہے‘ لیکن چین جانے کے بعد پتا چلا کہ ایسا نہیں ہے۔ زیادہ تر کیسز میں ایک بار جب لڑکی پاکستان سے چین روانہ ہوجائے تو پھر اس سے تعلق رکھنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ایک پولیس محرر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان تمام کیسز میں ایک جیسا طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے۔ جس میں ایک خاتون، تین مرد کسی خاندان کے پاس جاتے ہیں اور شادی کے خرچہ سے لے کر چین پہنچانے تک کے سارے انتظامات خود کرواتے ہیں۔ ’کچھ واقعات میں کہا جارہا ہے کہ شادیاں کامیاب ہوئی ہیں لیکن یہ وہ شادیاں بھی ہوسکتی ہیں جن میں لڑکیوں کو سامنے آنے کا موقع نہیں ملا‘ 2013 میں تصور کی جانے والی اور 2015 سے شروع ہونے والی پاک چین راہداری کے ساتھ کئی امیدیں اور پیسے جُڑے ہیں۔ زیادہ تر پاک چین دوستی کو سی پیک سے جُڑے مفادات کے نظریے سے دیکھا جاتا ہے۔ اسی لیے حال ہی میں ہونے والے ان واقعات اور ان کے نتیجے میں درج ہونے والی ایف آئی آر نظر انداز ہو رہی ہیں۔