جب بات ہو مطالعے کی تو میری دردبھری داستان بھی سُن لیجئے۔ میرا داماد پکّا ’’تحریکیہ‘‘ ہے۔ میں نے تحریکِ انصاف کے خلاف ایک بھرپور کالم لکھا۔ میری اُس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی جب میرے داماد نے اُس کو ’’لائیک‘‘ کیا۔ میں نے اُس سے کہا کہ کیا آپ کو بھی کالم پسند آیا؟۔
اُس نے کہا ’’آنٹی! دراصل آپ کا شیئر کردہ کالم پڑھا نہیں جا رہا تھا اِس لیے میں نے لائیک کردیا‘‘۔ پتہ نہیں ہماری نسلِ نَو کو مطالعے کا شوق کب پیدا ہو گا؟ پتہ نہیں یہ تبدیلی کب آئے گی لیکن تبدیلی کیا خاک آنی ہے کہ یہاں تو سیاست سے ثقافت تک ہر جگہ ’’2 نمبری‘‘ کا راج ہے۔ محترم عمران خاں بھی تبدیلی کا نعرہ لگا کر بَرسرِ اقتدار آئے لیکن 9 ماہ گزر چکے، ہوا ’’کَکھ‘‘ بھی نہیں سوائے اِس کے کہ یوٹرن کو قانونی حیثیت حاصل ہو گئی۔ اب ’’رَج کے‘‘ جھوٹ بولو اور جب جی چاہے یوٹرن لے کر بڑے لیڈر بن جاؤ۔ جس کی جی چاہے پگڑی اچھالو، صاحب کو ’’صاحبہ‘‘ کہہ دو، جاپان اور جرمنی کی سرحدوں کو آپس میں یوں ملا دو جیسے ’’ٹِچ بٹناں دی جوڑی‘‘، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کپتان نے 100 دنوں میں تبدیلی کا جو نعرہ لگایا وہ ہَوا ہُوا۔ اب وزیر با تدبیر قوم سے 2 سال مانگ رہے ہیں لیکن کپتان پورے 5 سال۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ جتنے جی چاہے مشیر لگائیں، کسی کو کیا۔ 5 سال بعد جواب تو اُنہوں نے ہی دینا ہے۔ 9 ماہ گزر چکے ’’ تبدیلی بچے‘‘ کی پیدائش کے دور دور تک کوئی آثار نہیں۔ اگر خاں صاحب نے ایسی ہی تبدیلی لانی ہے جیسی پچھلے 5 سالوں میں خیبرپختونخوا میں آئی تو پھر اِس ملک کا اللہ ہی حافظ۔ خاںصاحب نے کے پی کے کو سرسبز کرنے کا نعرہ لگا کر بلین ٹری منصوبہ بنایالیکن اپوزیشن کے مطابق 10 کروڑ درخت بھی نہ لگائے جا سکے۔ یہ الگ بات کہ خاںصاحب نے چین کے دَورے پر کہا کہ اُن کی حکومت نے 5 ارب درخت لگائے ہیں۔ اُنہوں نے نعرہ لگایا، جنگلا بس سروس نہیں بناؤں گا لیکن پھر وہ شروع بھی کر دی گئی۔ 100ارب صرف ہو چکے لیکن ابھی تک کھڈے ہی کھڈے۔ پشاور میں چوہے مار پروگرام اگر فوراََ ختم نہ کیا جاتا تو کے پی کے کا سارا بجٹ چوہے کھا جاتے۔ کے پی کے میں احتساب کا نیا نظام متعارف کروایا گیا، کروڑوں صرف ہوئے لیکن نتیجہ ’’صاحب نے کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا، بارہ آنے‘‘۔ احتساب کایہ نیا نظام بھی بالآخر ختم کرنا پڑا۔ پختون بھائی جلتے کڑھتے رہے کہ وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک کو ڈی چوک اسلام آباد کے دھرنے میں ’’تھرکنے‘‘ سے فرصت ملے تو اُن کے حال کی طرف بھی توجہ ہو۔ کے پی کے میں 300 چھوٹے ڈیم بنا کر بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بھی ’’ٹائیں ٹائیں فِش‘‘ ہوا۔خاںصاحب نے فرمایا تھا کہ وہ ’’الیکٹ ایبلز‘‘ اور آزاد ممبران کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیں گے لیکن اب تحریکِ انصاف میں ہر طرف الیکٹیبلز اور آزاد ممبران کی بھرمار۔ اُنہوں نے فرمایا کہ ڈالر کسی صورت میں بھی مہنگا نہیں ہونے دیا جائے گا لیکن پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ڈالر ساری حدیں توڑ کر 142 پر پہنچ گیا۔
معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ ڈالر 150 پر بھی نہیں رکے گا۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کا دعویٰ کرنے والے کپتان نے کہا کہ پٹرول، بجلی اور گیس کسی صورت مہنگی نہیں ہونے دی جائے گی لیکن یہ تینوں چیزیں اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہیں۔ نوازلیگ کے دَور میں 65 روپے لٹر ملنے والا پٹرول 100 روپے لٹر ہوچکا۔ بجلی اتنی مہنگی کہ پنکھا چلاتے ہوئے بھی خوف آئے ۔ گیس کے بِل جب آسمانوں کو چھونے لگے تو کپتان نے محض عوامی اشک شوئی کے لیے تحقیقات کا حکم دے دیا لیکن ہوا ’’ککھ‘‘ نہیں۔کپتان نے فرمایا کہ وزیرِاعظم ہاؤس اور گورنرہاؤسز کو تعلیمی درسگاہوں میں ڈھال دیا جائے گا۔ فی الحال کوئی تعلیمی درسگاہ معرضِ وجود میں آئی، نہ اِس پر کوئی کام شروع ہوا۔ ساری عمارتیں اپنے مکینوں سمیت اُسی شان وشوکت سے اپنی جگہ پر موجود۔ وزیرِاعظم نے کہا تھاکہ وہ ہرگز پروٹوکول نہیں لیں گے، واقعی اُنہوں نے پروٹوکول نہیں لیا کیونکہ وہ تو ’’واش روم‘‘ میں بھی ہیلی کاپٹر پر ہی جاتے ہیں حالانکہ اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ ہیلی کاپٹر کی بجائے ہالینڈ کے وزیرِاعظم کی طرح سائیکل پر سفر کریںگے۔ اُن کے وزرائے اعلیٰ کا تیس، تیس گاڑیوں کا پرٹوکول جاری وساری۔ فرمایا کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے سے بہتر ہے خودکشی لیکن پھر ’’بقلم خود‘‘ آئی ایم ایف کے دَرِ دولت پر حاضر بھی ہو گئے۔ کہا کہ اپوزیشن جو حلقہ کہے گی ، کھول دوںگا لیکن پھر اپنے ہی حلقے میں خواجہ سعد رفیق کے خلاف سٹے آرڈر کے پیچھے چھپ گئے۔ پاک صاف کابینہ کا دعویٰ تو ضرور کیا لیکن جتنی پاک صاف یہ کابینہ ہے، سبھی کو معلوم۔ 50 لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کا کیا بنا؟۔ ایم کیو ایم اور اختر مینگل کیوں چیخ رہے ہیںکہ اُن سے کیے گئے وعدوں اور معاہدوں پر عمل درآمد نہیں ہو رہا؟۔ داستان طویل لیکن کالم کا دامن تنگ، کہاں تک سنوگے ، کہاں تک سناؤں۔ تبدیلی کی آس لگائے بیٹھے ہیں، پتہ نہیں تبدیلی کب آئے گی ۔