اسلام آباد(نیوز ڈیسک ) وفاقی وزیرسائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ٹویٹر پیغام میں بتایا ہے کہ حکومت نے سپارکو، محکمہ موسمیات اوروزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی ہے جو کہ اگلے 10سال کے چاند، عیدین، رمضان اور محرم کے کلینڈر کی تاریخ کا کلینڈر جاری کرے گی۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اس طرح ہر سال کھڑا ہونے والا تنازعہ ختم ہو جائے گا۔یاد رہے کہ آج رمضان کا چاند دیکھنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس عصر کے بعد ہو گا جس میں شہادتوں اور ثبوتوں کی مدد سے یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ پاکستان میں پہلا روزہ سوموار کو ہو گا یامنگل کو۔ اس حوالے سے ہر سال رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے لیکن ملک کے کچھ علاقوں میں کمیٹی سے اختلاف کیا جاتا ہے اور ایک دن پہلے روزہ اور عید ین وغیرہ کا اعلان کر دیا جاتا ہے اس طرح ملک میں دو، دو عیدیں ہوتی ہیں اور روزے بھی الگ الگ دن شروع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے تنازعہ کھڑا ہو جاتا ہے تاہم اب وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی نے اعلان کیا ہے کہ ایک 5رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں سپارکو، محکمہ موسمیات اوروزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین شامل ہیں اور یہ کمیٹی آئندہ 10سالوں کے لیے قمری مہینوں کا کلینڈر جاری کرے گی۔ خیال رہے کہ ویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمان نے اسلامی کلینڈر بنانے سے متعلق فواد چوہدری کے بیان کو ’لاعلمی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں معلوم ہونا چاہیے اجلاس محکمہ موسمیات میں ہی ہوتا ہے۔ کبھی بھی ایسا نہیں ہوتا کہ کھلے آسمان میں چاند نظر نہ آتا ہو۔کراچی میں رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ فواد چوہدری نظام سے لاعلم ہیں۔ رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس محکمہ موسمیات میں ہی ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری نے کلینڈر بنانے کی بات کی ہے۔ اگر وہ چاہیں تو ہم انہیں 100 سال کا کیلنڈر بھی بنا دیں اور ان کے لیے جلسہ عام کا بھی انتظام کریں گے تا کہ وہ اپنا شوق تقریر پورا کرلیں۔اس سے قبل فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ’پانچ رکنی کمیٹی قائم کی ہے جس میں سپارکو، محکمہ موسمیات اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی اگلے دس سال کے چاند، عیدین، محرم اور رمضان سمیت دیگر اہم تاریخوں کا کیلنڈر جاری کرے گی۔ اس سے ہر سال پیدا ہونے والا تنازع ختم ہوجائے گا۔مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی تھی کہ دین کے معاملات پر جو متعلقہ وزیر ہیں، وہ بات کریں، ہر وزیر دین کی حساسیت کو نہیں سمجھتا۔ لہٰذا انہیں دینی معاملات پر تبصرہ کرنے کا فری لائسنس نہیں ملنا چاہیے۔