ڈاکٹر فضہ خان نے ایک نیوز چینل پر کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے پانچ پانچ سال پورے کئے تو تحریک انصاف کو بھی اپنے پانچ سال پورے کرنا چاہئیں۔ ابھی عمران خان کو بارہ مہینے بھی پورے نہیں ہوئے اور تنقید کا بازار گرم ہوگیا۔ کہا گیا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے کوتاہیاں کیں۔ عوام کے لیے کچھ نہیں۔ اُن کے نامۂ حکومت میں ایسا کچھ نہیں جو قابل ذکر ہو۔
یہ نامۂ حکومت ان کے نامۂ اعمال سے بھی گندا ہے۔ مہنگائی بھی انہی کے دور میں شروع ہوئی۔ قرضے بھی لئے گئے اور کچھ پتہ نہیں چلا کے کہاں گئے۔ عمران نے قرضہ لیا تو انہیں تکلیف ہو گئی ہے۔ انہوں نے لوگوں کو کوئی ریلیف نہیں دیا۔ ریلیف اور تکلیف ہم معنی ہو گئے۔ ہم تانیہ بھی ہو گئے ہیں۔ ماہر روحانیات اور ہاتھ دیکھنے والے برادرم یٰسین وٹو ہاتھ دکھاتے بھی رہتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے بلکہ اُن کا علم یہ کہتا ہے کہ عمران خان پانچ سال پورے کریں گے۔ آج نوائے وقت میں انہوں نے عمران خان کے لیے کلمۂ خیر لکھا ہے۔
ڈاکٹر فضہ اپنے چینل والوں کو یہ بتائیں کہ وہ پاکستانی زبانوں میں پروگرام کریں۔ روسی زبان میں پاکستانی چینل کون دیکھے گا۔ ترکی میں کتنے لوگ دیکھیں گے۔ اردو زبان کے علاوہ پنجابی سندھی بلوچی اور پشتو زبان میں پروگرام کئے جائیں ۔ اگر ایک زبان کے علاوہ کسی زبان میں پروگرام کرنا ہیں تو وہ ہماری اپنی زبانیں ہونا چاہئیں۔
جمعیت العلماء پاکستان کے مولانا ابو الخیر محمد زبیر نے کہا ہے کہ چاند دیکھے بغیر کیلنڈر بنانا شریعت کے خلاف ہے۔ یہ انہوں نے غالباً فواد چودھری کے اس بیان کے ردعمل میں کہا ہے کہ ہم کئی برسوں کے لیے چاند کے حوالے سے کیلنڈر بنائیں گے۔ یہ ایک نئی بحث ہے جو شروع ہو گئی ہے۔ پہلے چاند دیکھنے پر جھگڑے ہوتے تھے…
پہلے رویت ہلال کمیٹی نہیں ہوتی تھی تو کوئی جھگڑا نہیں ہوتا تھا۔ ہر بستی میں چاند دیکھنا ایک زبردست سرگرمی تھی۔ بچے بڑے عورتیں شوق سے چاند دیکھتی تھیں۔ چھتیں لوگوں سے بھری ہوتی تھیں۔ غالباً کسی ملک میں رویت ہلال کمیٹی نہیں ہے۔ پشاور کے مولانا پوپلزئی لازماً اختلافی بات کرتے ہیں اس سال بھی کی ہے۔ وہ خواہ مخواہ ایک دن بعد یا ایک دن پہلے ان مہینوں کا آغاز فرماتے ہیں۔ اس موقعے کے علاوہ ہم نے کبھی ان کا نام نہیں سنا۔ رویت ہلال کمیٹی کے لیے چالیس پچاس لاکھ روپے کے اخراجات پر بھی جواد چودھری نے تشویش کااظہار کیا ہے۔ اب مولانا منیب صاحب کی ناراضگی کا خطرہ بھی ہے۔ ایک نیا تنازعہ شروع ہو جائے گا۔ اس ملک میں ایک ایک وزیر پر لاکھوں روپے سالانہ خرچ ہو جاتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ بھی بے کار ہے اور وہ بھی بے کار ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مریم نواز کو خواہ مخواہ تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ اپنے والد کی طرح سزا یافتہ ہے۔ اس لیے وہ کسی جماعتی منصب پر فائز نہیں کی جا سکتی۔ وہ اصل میں بی بی مریم نواز کا بہانہ بنا کے اپنے مخالف جہانگیر ترین کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ وہ بھی نااہل ہیں مگر جماعتی میٹنگز میں شریک ہوتے ہیں۔ ورنہ شاہ محمود قریشی کو جرأت نہیں تھی کہ وہ مریم کے خلاف بات کرتے۔ انہوں نے تحریک انصاف سے پہلے ن لیگ میں جانے کی کوشش کی تھی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ تحریک انصاف میں جہانگیر ترین کی موجودگی ان کے لیے جذباتی اور سیاسی ناآسودگی کا باعث ہے اور جہانگیر ترین عمران خان کے دوست ہیں ا ور قریشی صاحب سے بہتر لیڈر ہیں۔ قریشی صاحب کو تو ابھی لیڈر نہیں کہا جاتا۔ وہ برادرم توفیق بٹ کے دوست ہیں۔ اس لیے میں اس موضوع کو یہیں ختم کرتا ہوں۔
میں نے ا یک کالم لکھا تھا کہ نواز شریف دوبارہ واپس آئیں گے۔ آج میری توجہ مریم نواز کے ٹویٹ کی طرف کسی نے دلوائی۔ انہوں نے بھی یہ بات کہی ہے کہ نواز شریف دوبارہ آئیں گے اور جلد آئیں گے۔ مریم نواز کچھ دنوں سے خاموش تھیں۔ نواز شریف نے بھی کوئی سیاسی بات نہیں کی۔ وہ آج دوبارہ کوٹ لکھپت جیل جا رہے ہیں۔ مریم نواز انہیں رخصت کریں گی۔ بیٹیوں کو باپ رخصت کرتے ہیں۔ یہ ایک منفرد اور ناقابل فراموش واقعہ ہے کہ ایک بہادر بیٹی اپنے والد کو جیل کے لیے رخصت کرے گی۔ میرے قبیلے کے ایک سردار مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی نے بہت عمر جیلوں میں گزاری ۔ وہ جیل کو اپنا سسرال کہتے تھے جبکہ انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔ میں شاعری کے خاں اعظم منیر نیازی کو بھی میں اپنے قبیلے کا سردار کہتا ہوں۔ انہوں نے دو شادیاں کیں مگر ان کا کوئی بچہ نہ تھا۔
سٹیل ملز کراچی کو پرائیویٹائز کرنے کے حکومتی ادارے کے خلاف ملازمین اور افسران نے دھرنا دیا ہے۔ سٹیل ملز خسارے میں جاری ہے جبکہ اسے پاکستان کی ترقی کا ضمانت کہا گیا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ملازمین کام نہیں کرتے۔ اب یہ پرائیویٹ ہو جائے گی تو کام کرنا پڑے گا۔ حکومت میں ہونے کے بعد یہ کسی کی بھی ملکیت نہ تھی۔ حکومت اس طرح معاملات میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اب جو اس سیل مل کو خریدے گا۔ وہ کام بھی لے گا کیونکہ اس میں اُن کا نفع نقصان وابستہ ہو گا۔ میرے خیال میں اسے پرائیوٹائز کیا جائے اور اس کے نئے مناسب سرکاری دلچپسی بھی قائم رکھی جائے۔
تنویر ظہور لاہور میں میرا سب سے پرانا دوست ہے وہ پنجابی کے لئے اپنی زندگی وقف کئے ہوئے ہیں۔ میں نے بھی اردو شاعری کے ساتھ ساتھ پنجابی شاعری شروع کرنے کا سلسلہ تنویر ظہور کی دوستی میں آغاز کیا۔ وہ 45 سال سے ایک پنجابی ادبی رسالہ شائع کر رہا ہے۔ جس کا نام ’’سانجھاں‘‘ ہے۔ یہ سانجھ اس نے عمر بھر نبھائی اس کی مہربانی ہے کہ مجھے باقاعدگی سے ’’سانجھاں‘‘ بھیجتا ہے تازہ ترین شمارے ہیں نامو اور مظفر شاعرہ شکیلہ کی شاعری شائع ہوئی ہے۔ یہ ’’سانجھاں‘‘ کا اعزاز ہے۔ شکیلہ لاہورسے دور سیالکوٹ کے ایک گائوں کی رہنے والی ہے جو پاک سرحد کے بہت قریب واقع ہے۔ اُن کی ایک لازوال نظم ہے جسے بڑے شاندار طریقے سے انہوں نے پیش کیا ہے۔
رب کھیڈاں کھیڈدا
کیڑے گیڑ گیڑ دا، وانگ گینداں ریڑھدا
ڈونگے کھواں ڈیگدا، رب کھیڈاں کھیڈ دا
جدوں موج وچ آوے ساڈی بین وچ جاوے
چٹا کر کے وکھاوے، کیڑے راگ چھیڑدا
رب کھیڈاں کھیڈ دا
سانوں کر بسر ویر ساڈی ویکھدا اے اخیر
فیر بن وڈا پیر، پھڑ سوئیاں لیڑ دا
رب کھیڈاں کھیڈ دا