لاہور: معروف صحافی عباس کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما صدیق الفارق کے بارے میں تین سال تک کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ گرفتار ہیں بھی یا نہیں۔ صدیق الفاروق کو نیب نے تین سال گرفتار رکھا اور نیب صدیق الفاروق کو جیل میں رکھ کر بھول گئی تھی۔ سپریم کورٹ میں صدیق الفاروق کی گرفتاری کا انکشاف ہوا تو نیب نے تسلیم کیا کہ ہم صدیق الفاروق کو گرفتار کر کے بھول گئے تھے۔
خیال رہے نیب پر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بہت تنقید کی جاتی ہے۔ نیب میں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف مختلف کیسز کی انکوائری چل رہی ہے۔ تاہم اپوزیشن کا یہ موقف ہے کہ نیب کا حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے اور نیب سارا کام وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر کررہا ہے ہمارے خلاف کارروائی کر کے زیادتی کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے کہا تھا کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ اب کھل کر سامنے آ چکا ہے حکمرانوں کے منفی ہتھکنڈے ناکام ہوں گے۔ نواز شریف کی بیماری پر سیاست کی جارہی ہے، دھرنا گروپ نے ملکی ترقی کی راہ میں رخنہ ڈالنے کا ناقابل معافی جرم کیا ہے۔ جب کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا تھا کہ نیب کا حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں وزیراعظم عمران خان کے خلاف ہیلی کاپٹر والی انکوائری بند کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا تھا کہ نیازی اور نیب کے گٹھ جوڑ نے پاکستانی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے، ان لوگوں کا احتساب قوم کرے گی، دنیا میں پلی بارگین کیساتھ لوگوں کو اندر بھی کیا جاتا ہے یہاں نیب نے بھتہ خوری کا نظام بنا رکھا ہے،افسران میں کروڑوں روپے تقسیم ہوتے ہیں۔
واضح رہے نیب کے ہاتھوں گرفتار سرگودھا یونیورسٹی لاہور کیمپس کے پروفیسر میاں جاوید دل کا دورہ پڑنے سے لاہور کی کیمپ جیل میں انتقال کر گئے تھے۔ موت کے وقت بھی انہیں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی اور اسی حالت میں لی گئی ان کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق پروفیسر میاں جاوید کو چند ماہ قبل نیب نے کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ بعدازاں انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر کیمپ جیل لاہور بھیج دیا گیا۔ جہاں انہیں دل کا دورہ پڑا۔ جیل انتظامیہ نے انہیں ہتھکڑی لگا کر جیل اسپتال منتقل کیا تاہم وہ دم توڑ گئے۔ نامہ نگاروں کاکہنا ہے کہ ڈاکٹروں نے ہتھکڑی کھولے بغیر ہی انہیں طبی امداد دینے کی کوشش کی لیکن وہ جانبر نہ ہوئے اور اس کے بعد جب ان کی لاش ابھی اسپتال میں ہی پڑی تھی تو کسی نے ہتھکڑی لگی حالت میں اس کی تصویر بنا دی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ پروفیسر کی ہتھکڑی لگی لاش کی تصویر وائرل ہونے کے بعد تنقید سامنے آنے پر نیب حکام نے ایک وضاحتی بیان میں کہا کہ پروفیسر جاوید کو اکتوبر میں ہی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل انتظامیہ کی تحویل میں دے دیا گیا تھا اور نیب نے جیل حکام کو پروفیسر جاوید کی صحت کے بارے میں بھی بتایا تھا۔ پروفیسر جاوید سرگودھا یونیورسٹی لاہور کیمپس کے چیف ایگزیکٹو تھے اور انہیں کیمپس غیرقانونی طور پر چلانے کے الزام میں تفتیش کا سامنا تھا۔