عمران خان کی جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ جو وہ آہستہ آہستہ پھینک رہا ہے۔ جو رہ گئے ہیں۔ وہ ٹکسال پر لگا دیے ہیں۔ بہادر لیڈر یہی کام کرتے ہیں جو عمران خان کررہا ہے۔ ایران کے انقلاب کی تاریخ میں رہبر انقلاب امام خمینی نے شاہ کو نکال باہر کرنے کیلئے شطرنج کی
چال چلی اور شاہ سمیت کئی گھوڑے گرا کر بازی اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پاک سر زمین پر اقتدار کی بساط پر بازی لینے کا جو کھیل پچھلے چند سالوں سے کھیلا جارہا ہے۔ جس میں کئی کھلاڑی جنہیں اپنے مہروں پر فٹ ہونے کا یقین تھا اور چال پر بھی ناز تھا۔ آج باہر محو تماشا ہیں۔ جنہیں یہ عزوم تھا دنیا ان کے اشاروں پر چلتی ہے۔ ان کے اشارے بھی خاک ہوئے اور جنہیں گمان عظمت تھا وہ محض خبط ثابت ہوا۔ کچھاڑ بھی ٹگے ٹوکری ہوئی اور کمان کا مان بھی کہیں کا نہ رہا۔ جو نئے مہروں کے ساتھ بازی پلٹے کا مان لیکر میدان میں اترے۔اپنی ہی چال کا شکار ہوئے۔ جبکہ کھلاڑی دوسروں کے مہروں پر کھیل کر مات دے گیا ہے۔ کرائے کے کھلاڑی تب سمجھتے ہیں جب بازی ہاتھ سے نکل گئی ہوتی ہے۔ کھلاڑی پلٹتا ہے۔ جھپٹتا ہے۔ مات دیتا ہے اور نئے شکار کی جانب لپکتا ہے۔ نومبر زیادہ دورنہیں ہے۔ پھر اک نیا دور شروع ہوگا۔ نئے کھلاڑی اتریں گے۔ نئی بساط بچھائی جائے گی لیکن تب تک شاید کھیل اپنے اختتام کی حدیں چھو رہا ہو اور فاتحین کی اک نئی صف کھڑی ہوجائے۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کے صفحات حیرت کے نئے باب رقم کررہے ہوں۔ میری اس بات کو آج خام خیالی قرار دیا جاسکتا ہے۔ دیوانے کا خواب کہا جا سکتا ہے۔مگر کیا کروں۔ دوسری آنکھ سے دیکھنے کی خو ہے۔ کہنے اور لکھنے کو نااہل، ناتجربہ کار اور بہت کچھ جو کہا اور لکھا جارہا ہے۔ دھڑلے سے بھائی بندوں کی طرح کہہ دیتا، لکھ دیتا۔ تو کیا تھا۔ کون منع کر رہا تھا۔ مگر چند سالوں میں ہونے والی انہونیاں کوئی اور خبر دیتی ہیں۔ جی ہاں۔ کیا یہ انہونی نہیں ہے کہ بڑے بڑے جگادری صرف جگالی کرنے تک محدود کردیے گئے ہیں۔ پارلمان میں سلکٹیڈ پرائم منسٹر کی صدا بلند ہوتی ہے۔ یہی سلکٹیڈ پرائم منسٹر غیرملکی صحافی کو انٹرویو میں آسانی کہہ دیتا ہے کہ کالعدم تنظیمیں فوج نے بنائی ہیں۔ ایران میں بھی سچ ہی کہہ دیتا ہے۔ تازہ ترین بیان کہ فوج ملک نہیں سنبھال سکتی ہے یہ کام عوام اور عوام کے منتخب نمائندوں کا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں الکٹیڈ پرائم منسٹر کی جرات نہیں ہوئی ہے وہ سلکٹیڈ پرائم منسٹر کی طرح کوئی بات کرے اور کرسی اقتدار پر بھی براجمان رہے۔ تنقید کی نئی راہ نکلی ہے۔ لکھنے والے اب حساس ادارے کا براہ راست نام لکھ کر بات کر تے ہیں۔ صرف سیاسی کردار ہی بےنقاب نہیں ہوئے ہیں۔ پارسائی اور تقدس کے بت بھی پاش پاش ہوئے ہیں۔ بات یہی رک جاتی تو اور بات تھی۔ سیاست کی طنابیں اک طرف اپنی ماں کی قربانی پر کھڑے غصیلے جوان اور دوسری طرف بربادیوں، ناانصافیوں،ظلم و جبر کی داستان لئے نڈر نوجوان کے ہاتھوں میں جاچکی ہیں۔ وزیرستان کے دیہاتی سکول ٹیچر کے اس سپوت نے صرف بندوقوں کے رخ ہی نہیں موڑ دیئے بلکہ موت کا منظر مرنے کے بعد کیا ہوگا کی حقیقت کھول کر خوف کی ماں مار دی ہے۔ یہی انہونیاں ہیں۔ جو دوسری آنکھ دیکھتی ہے۔ یہ بات مکمل یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ پاکستان کے جمہوریت پسند اور غیور عوام بھٹو کو بھول جائیں گے اور اگلے پچاس سال جمہوری سیاست کے ماتھے کا جھومر عمران خان کانام ہوگا۔ یہ انہونی ہوگی اور ہوکر رہے گی۔ انہونی ہونے جارہی ہے۔ انہونی ہونے والی ہے۔ ملک کا جغرافیہ نہیں بدلے گا۔ ریاست کا مزاج بدلے گا اور طرز سیاست تبدیل ہوگی۔ وہ طرز سیاست عمران خان دیکر جائیں گے۔