واشنگٹن: امریکہ نے اسامہ بن لادن کے بیٹے حمزہ بن لادن کو دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق امریکہ نے اسامہ بن لادن کے بیٹے حمزہ کودہشتگردوں سے متعلق فہرست ایس ایم آئی ایل میں شامل کر لیا ہے، حمزہ بن لادن القاعدہ سے رابطے اور امریکہ کو دھمکی دینے پر مطلو ب ہے ۔ تفصیلات کے مطابق امریکہ نے اسامہ بن لادن کے بیٹے حمزہ بن لادن کو دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کرلیاہے ۔نجی ٹی وی کے مطابق امریکہ نے اسامہ بن لادن کے بیٹے حمزہ کودہشتگردوں سے متعلق فہرست ایس ایم آئی ایل میں شامل کرلیاہے ، حمزہ بن لادن القاعدہ سے رابطے اور امریکہ کو دھمکی دینے پر مطلو ب ہے ۔ امریکی ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ حمزہ بن لادن پاکستان ، افغانستان ، ایران یا شام میں موجود ہوسکتا ہے۔
یاد رہے آٹھ سال قبل جب دو مئی 2011 کو امریکی خصوصی افواج کے ایک دستے نے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ایبٹ آباد میں دنیا کے سب سے مطلوب شخص اسامہ بن لادن، ان کے قریبی ساتھی ابو احمد الکویتی اور دیگر تین افراد کے خلاف رات گئے کارروائی کی تو اس وقت زین بابا اپنے گھر کے برآمدے میں سو رہے تھے۔ نوے سال سے زیادہ عمر والے محمد زین ایبٹ آباد کے علاقے بلال ٹاؤن میں گذشتہ چھ دہائیوں سے رہائش پذیر ہیں اور زین بابا کے نام سے معروف ہیں۔اسامہ بن لادن کے مکان کے سب سے قریب رہنے والے پڑوسی زین بابا کا گھر اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ کے گیٹ کے سامنے واقع ہے جس کے درمیان میں صرف سات فٹ کی ایک سڑک ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے زین بابا نے بتایا کہ ان کی یاداشت اب کمزور ہوچکی ہے، قوت سماعت بھی اچھی نہیں ہے لیکن بہت کچھ بھول جانے کے باوجود بھی انھیں دو مئی 2011 کی رات کا واقعہ اچھی طرح یاد ہے۔ وہ بتاتے ہیں: ‘میں اس رات معمول کی طرح اپنے گھر کے بر آمدے میں سویا ہوا تھا۔ یہ ایک گرم اور اندھیری رات تھی۔ بجلی غائب تھی کہ یک دم کوئی رات بارہ، ساڑھے بارہ بجے کے قریب ہیلی کاپٹر کی آوازیں سنیں۔ وہ بالکل میرے گھر کی چھت پر پرواز کر رہے تھے جس سے میری چادریں بھی اڑ کر پتا نہیں کہاں گئیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ کوئی تین ہیلی کاپٹر تھے جن میں ایک ڈبل پروں والا تھا جبکہ باقی دو دوسرے تھے۔ اس دوران پرواز کرتے ہوئے ایک کوٹھی کی چھت پر رکا تھا جس میں سے وہاں فوجی اترے، دوسرے نے ان کھیتوں میں جہاں میں نے آلو کاشت کر رکھے تھے وہاں پر کچھ فوجی اتارے اور تیسرا ہیلی کاپٹر میرے گھر کے قریب خالی پلاٹ پر رکا۔ اسی دوران ایک ہیلی کاپٹر صحن کے اوپر آیا تو پتا نہیں کیا ہوا، وہ ایک دم تیزی سے درختوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے کوٹھی کی دیوار کے پاس جا کر ٹکرا گیا تھا۔ یہ نہیں پتا چل سکا کہ اس میں پائلٹ بچ گیا تھا یا مر گیا تھا۔ زین بابا بتاتے ہیں کہ بعد میں انھوں نے سڑک پر دوڑنے کی آوازیں سنیں۔
اس دوران دو مرتبہ ان فوجیوں نے میرے گھر کے گیٹ کو بھی کھولنا چاہا تھا جبکہ چھت پر سے بھی بوٹوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اس دوران بقیہ فوجیوں نے کوٹھی کا گیٹ کھولنا اور توڑنا چاہا مگر وہ اس میں ناکام رہے تو انھوں نے ہینڈ گرنیڈ پھینک کر گیٹ کو توڑا جس کا ایک ٹکڑا میرے گھر کے برآمدے میں بھی گرا تھا جو میں نے صبح پاکستانی حکام کے حوالے کیا تھا۔ اندھیرے کی وجہ سے میں دیکھ نہیں سکا کہ وہاں کیا ہو رہا تھا مگر بوٹوں کی آوازوں سے پتا چلتا تھا کہ وہ تیسری منزل پر پہنچ گئے تھے جہاں پر دو کمرے تھے۔ ان کمروں میں خواتین اور بچے ہوتے تھے۔ میں نے عورتوں اور بچوں کے چیخنے کی آوازیں اس طرح سنی جس طرح مرغی اور اس کے بچوں کو چھیڑا جائے تو وہ چیختے ہیں۔ ان چیخوں کی آوازیں سن کر میں ہل گیا تھا مگر چند ہی لمحوں کے بعد وہ آوازیں آہستہ آہستہ بند ہوگئیں تھیں۔ زین بابا بتاتے ہیں کہ اس کے بعد دوبارہ بوٹوں کی آوازیں شروع ہو گئیں۔ فوجیوں نے ہیلی کاپٹر میں بیٹھنا شروع کردیا تھا۔ مجھے کسی بندوق کی گولی کی کوئی آواز سنائی نہیں دی تھی۔ ہاں جب وہ جارہے تھے تو ہیلی کاپٹر تباہ کرنے کا زوردار دھماکہ ضرور ہوا تھا۔ وہ ابھی اڑے ہی ہوں گے کہ پولیس موقع پر پہنچ گئی جس نے علاقے کے چاروں طرف کھڑے لوگوں کو ہٹانا شروع کردیا تھا۔ اس کے بعد فوج بھی پہنچ گئی جس نے لاشوں کو نکالا۔ عورتوں اور بچوں کو گاڑیوں میں بٹھایا اور پھر وہاں چوکیاں قائم کر کے ایک سال تک موجود رہے۔مئی 2011 میں بلال ٹاؤن کا علاقہ قدرے ویران تھا اور زین بابا اُس وقت چوکیداری کے فرائض انجام دیتے تھے۔