لندن (ویب ڈیسک) برطانیہ میں قومی سطح پر کیے گئے ایک سروے کے مطابق برطانوی افراد کے درمیان سیکس کرنے کا رجحان پہلے کی نسبت کم ہو گیا ہے۔برطانوی میڈیکل جریدے میں شائع ہوئے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ تقریباً ایک تہائی مرد اور خواتین نے گذشتہ مہینے کے دوران جنسی تعلق نہیں رکھا۔ بی بی سی کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق 34000 افراد نے اس سروے میں حصہ لیا۔سروے کے دوران مرتب کیے گئے جوابات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 16 سے 44 برس کے تقریباً نصف سے کم مرد و خواتین نے ایک ہفتے میں کم از کم ایک بار سیکس کیا۔21 سالہ تحقیق کے عرصے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 25 برس سے زائد عمر کے افراد اور شادی شدہ یا ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والے لوگ سب سے کم جسمانی تعلقات استوار کرتے ہیں۔محققین نے جس ڈیٹا کا جائزہ لیا ہے وہ ’برٹش نیشنل سروے آف سیکچوئل ایٹی ٹیوڈس اینڈ لائف سٹائلز‘ نے تین مختلف ادوار سنہ 1991، 2001 اور 2012 میں اکھٹا کیا تھا۔ یہ برطانوی افراد کے جنسی رویوں کی ایک عکاسی کرتا ہے۔گذشتہ ماہ کے دوران 41 فیصد یعنی آدھے سے کم ایسے افراد جن کی عمر 16 سے 44 برس کے درمیان ہے نے ہفتے میں کم از کم ایک بار سیکس کیا۔گذشتہ ماہ کے دوران خواتین میں سیکس نہ کرنے کا تناسب 23 فیصد سے بڑھ کر 29.3 فیصد ہو گیا جبکہ سنہ 2001 سے 2012 کے درمیان مردوں میں بھی یہ تناسب 26 فیصد سے بڑھ کر 29.2 فیصد ہو گیا تھا۔گذشتہ ماہ کے دوران 10 یا اس سے زیادہ بار سیکس کرنے والے افراد کا تناسب خواتین میں 20.6 فیصد سے کم ہو کر 13.2 فیصد ہو گیا ہے جبکہ سنہ 2001 سے 2012 کے درمیان مردوں میں یہ تناسب 20.2 فیصد سے کم ہو کر 14.4 فیصد تھا۔35 سے 44 سال کی عمر کے ایسے افراد جنھوں نے گذشتہ ہفتے سیکس کیا، ان کی اوسط خواتین میں چار سے کم ہو کر 2 اور مردوں میں 4 سے کم ہو کر 3 رہ گئی ہے۔لندن سکول آف ہایجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کے محققین کا کہنا ہے کہ سیکس میں کمی کی وجہ دیر تک کنوارہ پن برقرار رکھنے کی خواہش کی بجائے ایسے افراد میں کم سیکس کا رجحان ہے جو پہلے جنسی طور پر خاصے سرگرم تھے۔ اگرچہ 25 برس سے کم عمر افراد میں اور وہ جو اب تک تنہا ہیں، جنسی طور پر کم متحرک ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے لیکن کم سیکس کے رجحان میں سب سے آگے بڑی عمر کے شادی شدہ یا اکٹھے رہنے والے جوڑیں ہیں۔بظاہر ایسا نہیں ہے۔ حالیہ سروے کے مطابق نصف کے قریب خواتین اور دو تہائی مردوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سیکس کرنا چاہتے ہیں۔اس خواہش کا اظہار زیادہ تر ایسے افراد کی جانب سے کیا جاتا ہے جو شادی شدہ ہیں یا ایک ساتھ جوڑے کی طرح رہ رہے ہیں اور یہ بات محقیقن کے لیے پریشان کن ہے۔تحقیق کی سربراہ پروفیسر کیے ویلنگز کا کہنا تھا کہ جدید زندگی کی تیز رفتاری ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ بہت سے لوگ اب کم سیکس کر رہے ہیں۔یہ دلچسپ ہے کہ ان میں سے سب سے زیادہ متاثر وہ درمیانی عمر کے افراد ہیں جنھیں ‘سینڈوچ’ نسل کہا جاتا ہے. یہ مرد اور عورتیں وہ ہیں جو اکثر کام کرتے ہیں، بچے کی دیکھ بھال اور ان پر بزرگ والدین کی ذمہ داریاں ہوتیں ہیں۔محققین کا کہنا ہے کہ شاید اہنے جنسی تعلقات کو بڑھا چڑھا کر بتانے کا سماجی دباؤ اب اتنا نہیں رہا ہے، جبکہ صنفی مساوات کے دور میں خواتین پرصرف اپنے ساتھی کی جنسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سیکس کرنے کا دباؤ کم ہے۔یہ کمی اس وقت سامنے آئی ہے جب سوشل میڈیا کا استعمال بڑھا ہے اور عالمی سطح ہر معاشی بحران میں اضافہ ہو ہے۔پروفیسر ویلنگز کہتی ہیں کہ کم سیکس کرنا ہمیشہ بری بات نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سروے کے نتائج چند افراد کے لیے بہت اطمینان بخش تھے۔’اچھی صحت کے لیے یہ اہم نہیں ہے کہ لوگ کتنا سیکس کرتے ہیں مگر یہ کہ کیا یہ ان کے لیے اہم ہے۔ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ دوسرے افراد ان کی نسبت زیادہ تواتر کے ساتھ سکیس کرتے ہیں اور بہت سے لوگوں کو یہ یقین دہانی کرنی پڑتی ہے کہ وہ غلط نہیں ہیں.‘سیکس تھراپسٹ پیٹر سیڈنگٹن کا کہنا تھا ’اہم بات یہ ہے کہ آپ کتنا اچھا سیکس کر رہے ہیں نہ کہ کتنی بار کر رہے ہیں۔ اگر آپ کے لیے یہ تجربہ خوشگوار رہا ہے تو آپ اسے دہرائیں گے۔ یہ ہمیشہ اچانک نہیں ہوگا بلکہ آپ کو اس کے لیے وقت نکالنا پڑے گا۔