سی پیک اور دیگر متعلقہ منصوبوں کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے پاک چین تعلقات کے ساتھ معاشی مواقعے کے علاوہ ثقافتی تصادم کا در آنا بھی لازم تھا۔ پاکستان اور چین مذہبی و ثقافتی طور پر دو یکسر مختلف اقوام ہیں۔ جب چینیوں نے ایک طغیانی کی صورت ہمارے ملک میں آنا شروع کیا تو پاکستانی اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ مختلف زبان اور سماجی رسم و رواج کے سبب چینیوں کا پاکستان میں اجنبی تصور کیا جانا فطری تھا، نہ صرف اس لیے کہ چینی رہن سہن کے متعلق معلومات پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ مختلف تصور کی جانے والی ہر شے کے لیے برداشت تو اس سے بھی کم ہے۔
تازہ ترین تماشا میڈیا کی اس رپورٹ سے شروع ہوا جس کے مطابق کئی نوجوان پاکستانی لڑکیاں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ہماری مسیحی برادری سے ہے، یا تو جعلی شادیوں کا شکار ہوئیں یا والدین کی طرف سے شادی کے نام پر فروخت کردی گئیں۔ ان لڑکیوں کو بعد ازاں بیرون ملک لے جایا گیا، جہاں یا تو انھیں جسم فروشی کے لیے استعمال کیا گیا یا ان کے جسمانی اعضاء زبردستی نکال لیے گئے۔
انسانی اسمگلنگ سے مقابلہ کرنے والی پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ایک اعلیٰ عہدیدار جمیل احمد نے رائٹرز کو بتایا کہ ایف آئی اے نے قحبہ گری کروانے والے ایک گروہ کے 12 مبینہ ارکان کو گرفتار کیا جو پاکستانی عورتوں کو چین لے جاتے تھے۔ یہ انسانی اسمگلنگ کے اس بڑھتے ہوئے مسئلے کا حصہ ہے جو اکثر جعلی شادیوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ گرفتار کیے گئے افراد میں سے آٹھ کا تعلق چین اور چار کا پاکستان سے ہے۔ ہیومن رائٹس واچ جیسی بین الاقوامی تنظیموں نے پاکستان کو خواتین کی چین میں اسمگلنگ کی خبروں سے خبردار کیا ہے۔ یہ الزامات پانچ دیگر ایشیائی ممالک سے دلہنوں کی چین اسمگلنگ کے طریقہ کار سے مماثل تھے
چینی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ بیجنگ شادی بیاہ کے غیر قانونی مراکز کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے پاکستان سے تعاون کررہا ہے۔ سفارت خانے نے بجا طور پر نشان دہی کی کہ پاکستانی اور چینی، دونوں ہی قوموں کے نوجوان ان غیر قانونی ایجنٹوں سے متاثر ہورہے ہیں۔ چینی سفارت خانے کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ’’شادیوں کے حوالے سے چین کا موقف انتہائی واضح ہے اور وہ یہ کہ جائز شادیوں کا تحفظ کیا جائے اور جرائم سے نمٹا جائے۔ اگر کوئی تنظیم یا شخص سرحد کے آر پار شادی کے نام پر پاکستان میں کوئی جرم کرتا ہے تو چین اس کے خلاف پاکستانی قوانین کے مطابق کریک ڈاؤن کی حمایت کرتا ہے۔ چین کی وزارتِ تحفظِ عامہ کی تحقیقات کے مطابق چینی افراد سے شادی کے بعد چین میں مقیم پاکستانی خواتین کی جبری جسم فروشی یا انسانی اعضاء کی فروخت کا سراغ نہیں ملا۔‘‘
چینی سفارت خانے نے تسلیم کیا کہ کچھ ’’غیر قانونی رشتہ مراکز‘‘ پاکستانی اور چینی نوجوانوں کو سرحد پار شادی کے نام پر دھوکا دے کر منافع کما رہے ہیں، لیکن دیگر الزامات کا تاحال ثبوت نہیں ملا۔ تاہم لگتا ہے کہ چینی تحقیقات جاری ہیں۔ سفارت خانے کے مطابق : ’’چین کی وزارتِ تحفظِ عامہ نے پاکستان کے ساتھ قانون نافذ کرنے کے حوالے سے تعاون کے لیے ایک ٹاسک فورس بھیجی ہے۔ چین پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کو مضبوط تر بنائے گا تاکہ دونوں ملکوں کے لوگوں کے جائز حقوق اور مفادات کا تحفظ کیا جاسکے اور پاک چین دوستانہ تعلقات کی مشترکہ طور پر حفاظت کی جاسکے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ میڈیا کو سچائی، معروضیت اور انصاف پسندی کے ساتھ حقائق رپورٹ کرنے چاہییں۔ ہم کچھ مجرم پیشہ افراد کو ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ وہ پاک چین دوستی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان دوستانہ احساسات کو مجروح کریں۔‘‘
چونکہ چینی والدین بھی پاکستانیوں کی طرح بیٹیوں پر بیٹوں کو ترجیح دیتے ہیں، اس لیے بچیوں کو پیدائش سے قبل ہی اسقاطِ حمل کے ذریعے ختم کردینے کا سلسلہ دہائیوں سے وہاں جاری تھا۔ اس رجحان کے سبب چین میں بیاہ کے قابل لڑکیوں کی تعداد بہت کم ہوچکی ہے۔
ایسے میں کیا کیا جائے ؟ دلہنیں درآمد کرنا آبادی میں پیدا ہونے والے عدم توازن کو درست کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ پہلی پسند اگرچہ چین سے باہر انڈونیشیاء ، ملائیشیاء وغیرہ میں بسنے والے چینی خاندانوں کی بیٹیاں ہی ہوں گی، لیکن اس کے باوجود دلہنوں کی کمی کا سامنا ہے۔ کسی بھی ترقی پذیر ملک کی طرح پاکستان میں بھی خواتین سمیت نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بہتر مستقبل کی امید پر ملک سے باہر جانے کے لیے پر تول رہی ہے۔ اگر چینی نوجوان ایمانداری کے ساتھ پاکستان میں دلہنیں تلاش کرنے آئیں تو اس میں کوئی برائی نہیں۔
جب شادی اور خانہ آبادی کے بجائے عورتوں کا جسم فروشی کے لیے استعمال کرنے کے لیے جعلی شادیاں رچائی جائیں تو صورتحال تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس ذریعے سے پیسہ بنانا اور لڑکیاں بیچنا ایسا جرم ہے جس کا تدارک لازم ہے۔ اس بات کا اعتراف بھی کرنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں عورتوں کی ٹریفکنگ اور دلہنوں کی تجارت کا مسئلہ چینیوں کی دلہنوں کی تلاش کی خاطر آمد سے شروع نہیں ہوا۔ ان مسائل کی یہاں لمبی تاریخ ہے۔ ہمیں مقامی و چینی افراد کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا اندازہ ہونا چاہیے تھا۔
چینی سفارت خانے نے بجا طور پر شکایت کی ہے کہ پاکستانی اور دیگر ذرائع ابلاغ کی جانب سے بعض غیرمصدقہ اطلاعات، پاکستان اور پاکستان سے باہر چین کے امیج کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ بین الاقوامی صورتحال کے پیشِ نظر جہاں مغربی دنیا امریکا کی زیر قیادت چین کے خلاف معاشی، سیاسی اور میڈیا جنگ جاری ہے، غیر مصدقہ اطلاعات مغرب کے لیے مفید ہوں گے۔ پاکستان کو اس حوالے سے احتیاط برتنی چاہیے۔ پاکستان کے قومی مفاد میں ہے کہ چین سے دوستانہ تعلقات نہ بگاڑے جائیں۔ چینی کسی بھی ممکنہ جرم کی تحقیقات میں تعاون کررہے ہیں اور یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی چینی مجرم پکڑا گیا تو سزا ضرور بھگتے گا۔ خواہش ہے کہ پاکستانی پروسیکیوشن اور انصاف کی فراہمی بھی اتنی ہی نتیجہ خیز ہو۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ وہ چینی مردوں کی پاکستانی عورتوں سے شادی کے مسئلے کی ’’قریب سے نگرانی‘‘ کر رہے ہیں۔ ’’حکومتِ چین نے اس مسئلے پر ہر قسم کے ممکنہ تعاون کی پیشکش کی ہے جس کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا۔ چینی وزارتِ تحفظ عامہ کی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے ترجمان دفترخارجہ نے کہا دونوں فریقین قریبی تال میل کے ساتھ کوششیں کررہے ہیں۔‘‘ دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سنسنی خیزی سے بچا جائے۔ پاکستان اور چین مستقل اسٹریٹجک اتحادی ہیں۔ دونوں ملکوں کی دوستی کو دونوں ہی ممالک میں عوام اور اداروں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ دونوں اطراف دوستی کو مضبوط تر کرنے اور اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو تمام جہتوں میں بڑھانے کا عزم رکھتی ہیں۔‘‘
مجرم پیشہ افراد دیگر مقامات پر بھی گلوبلائز ہوتی دنیا میں نئی ترقیوں کا فائدہ اٹھانے اور غیر واضح اور غیر منضبط قانونی خلاء دریافت کرنے میں سرگرم ہیں۔ یورپی یونین مشرقی یورپ کی جانب توسیع کے عمل میں پہلے پہل ایسے ہی تجربات سے گزری۔ اس گلوبلائزیشن کے مجرمانہ حصے پر قابو پانے کی ضرورت ہے لیکن عوامی سطح کے رابطوں کو فروغ دیا جانا چاہیے جو دیگر ثقافتوں کی بہتر تفہیم میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ افواہوں کے حملوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے، خصوصاً جب ایسے حملوں کو پاک چین تعلقات خراب کرنے کے خطرناک مقاصد سے تحریک ملی ہو۔