اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں ریڈ زون کے انتہائی حساس ترین علاقے منسٹرز کالونی سے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی چوری شدہ فائلوں کا سراغ نہیں مل سکا، پی پی، ن لیگ مجھے دشمن نمبر ون سمجھتی ہے، قبضہ مافیا میرے خلاف، ریاستی ادارے، حکومت بھی نا خوش، مجھے دھمکیاں دی گئیں، پرویز خٹک، زرداری، حمزہ شہباز جلد جیل میں ہونگے، سیاستدان اور قبضہ مافیا مجھ پر دبائو بڑھا رہے ہیں، برداشت کر رہا ہوں، ان سے پوچھا گیا آپکو کوئی تھریٹ ہے؟ تو جواب دیا بیشمار، ہماری ایجنسیوں نے چند ماہ قبل دو لوگوں کی کال ٹریس کی، ایک بااثر شخص دوسرے سے کہہ رہا تھا جسٹس کو پانچ ارب روپے کی پیشکش کر دو‘ دوسرے نے جواب دیا یہ پیسے لینے کیلئے تیار نہیں، پہلے نے کہا اسے ڈرا دو، دوسرے نے جواب دیا‘ ہم نے کئی بار ڈرایا‘ اسکی گاڑی کا پیچھا کیا‘ بم مارنے کی دھمکی بھی دی لیکن یہ نہیں ڈر رہا‘ پہلے نے کہا پھر اڑا دو، ان سے پوچھا گیا یہ کون لوگ تھے، تو انہوں نے جواب دیا یہ میں آپکو چند ماہ بعد بتاؤں گا، یہ لینڈ گریبرز اور سیاستدانوں کا مشترکہ منصوبہ تھا، نیب حکام کا کہنا ہے کہ سرکاری فائلیں تھیں جو چوری کرلی گئیں جبکہ پولیس ذرائع کہتے ہیں اڑھائی ماہ پہلے واقعہ کی ایف آئی آر درج نہیں کرائی گئی صرف روزنامچے میں اندراج ہوا تھا، واقعہ کے بعد چیئرمین نیب کی سکیورٹی بڑھا دی گئی تھی اوردو پولیس گارڈز انکی رہائشگاہ پر تعینات کردئیے گئے تھے،تین ماہ قبل جب سکیورٹی خدشات کے پیش نظر چیئر مین نیب بحریہ ٹائون میں ذاتی رہائشگاہ سے منسٹرز کالونی کے بنگلہ نمبر انتیس میں شفٹ ہوئے ،ایک روز وہاں انہوں نے چند فائلیں رکھیں اور دورے پر لاہور گئے، انکی عدم موجودگی میں کسی نے گھر کی پچھلی کھڑکی کا جنگلہ توڑا ،اندر داخل ہوا ،تلاشی لی اور فائلیں چوری کرکے غائب ہوگیا
چیئرمین نیب نے یہ واقعہ صحافی جاوید چودھری سے ایک ملاقات میں بیان کیا، جاوید چودھری کی گزشتہ ہفتے چیئرمین نیب سے ملاقات ہوئی تھی، چیئرمین نیب نے گزشتہ دنوں اپنی ایک تقریر میں نیب ہیڈ کوارٹر کو بم سے اڑانے کی دھمکی کا بھی ذکر کیا تھا، اس حوالے سے ذرائع کاکہنا ہے کہ چھ ماہ پہلے نیب ہیڈ کوارٹر کو بارود سے اڑانے کا دھمکی آمیز خط ملا تھا ،سکیورٹی ٹیموں نے خط لکھنے والے کو ٹریس کیا اس شخص نے دوران تفتیش اعتراف کیا کہ نیب ہیڈ کوارٹر کو بارود سے اڑانے کیلئے اسے چار کروڑ روپے کی آفر ہوئی تھی یہ شخص اب بھی زیر تفتیش ہے،چیئرمین نیب سے سوال پوچھا گیا کہ آپکی پرانی ذمہ داریاں مشکل تھیں یا یہ جاب، جسٹس(ر) جاوید اقبال نے جواب دیایہ زیادہ مشکل ہے کیونکہ اس میں ہر طرف سے دباؤ آتا ہے لیکن سب کچھ برداشت کر جاتا ہوں، مجھے سپریم کورٹ سے اتنی رقم اور پنشن مل جاتی ہےجس سے میرا شاندار گزارہ ہو جاتا ہے، میری عمر 73 سال ہو چکی ہے، ان سے پوچھا گیا آپکو کوئی تھریٹ ہے؟تو جواب دیا بیشمار،ہماری ایجنسیوں نے چند ماہ قبل دو لوگوں کی کال ٹریس کی، ایک بااثر شخص دوسرے سے کہہ رہا تھا جسٹس کو پانچ ارب روپے کی پیشکش کر دو‘ دوسرے نے جواب دیا یہ پیسے لینے کیلئے تیار نہیں ،پہلے نے کہا اسے ڈرا دو، دوسرے نے جواب دیا‘ ہم نے کئی بار ڈرایا‘ اسکی گاڑی کا پیچھا کیا‘ بم مارنے کی دھمکی بھی دی لیکن یہ نہیں ڈر رہا‘ پہلے نے کہا پھر اڑا دو، ان سے پوچھا گیا یہ کون لوگ تھے،توانہوں نے جواب دیا یہ میں آپکو چند ماہ بعد بتاؤں گا، یہ لینڈ گریبرز اور سیاستدانوں کا مشترکہ منصوبہ تھا، میں نے احتیاط شروع کر دی
حکومت نے مجھے منسٹر کالونی میں گھر دیدیا لیکن یہ گھر بحریہ ٹاؤن میں میری ذاتی رہائشگاہ سے زیادہ خطرناک بن گیا،فائل چوری ہونے کا واقعہ منسٹر کالونی میں پیش آیا،منسٹر کالونی کے بنگلہ نمبر 29 میں اور یہ پاکستان کی محفوظ ترین جگہ ہے، پولیس فنگر پرنٹس کے باوجود مجرم تک نہیں پہنچ سکی، یہ میرے لئے وارننگ تھی چنانچہ میں اب اس گھر میں نہیں رہ رہا، کبھی اپنی بہن کے گھر رہتا ہوں‘ کبھی بیٹی کے گھر چلا جاتا ہوں اور کبھی اپنے کسی عزیز کی رہائشگاہ پر‘ میں نے کون سی رات کس گھر میں گزارنی ہے ، کسی کو نہیں بتاتا، احتیاطاً اپناسٹاف بھی ساتھ لے جاتا ہوں ،ان سے پوچھا گیا آپکو کس سے خطرہ ہے، بولے نہیں جانتا لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے میں اب سب کا ٹارگٹ ہوں،یہ تمام لوگ مجھے برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، ان سے سوال کیا کہ کیا موجودہ حکومت بھی آپ کیساتھ خوش نہیں،تو بولے یہ بھی مجھ سے خوش نہیں ،یہ بھی چاہتے ہیں عمران خان کا ہیلی کاپٹر کیس بند ہو جائے‘ بابراعوان کا ریفرنس‘ علیم خان اور فردوس عاشق اعوان کیخلاف تفتیش اور سب سے بڑھ کر پرویز خٹک کیخلاف مالم جبہ کی غیرقانونی لیز کی انکوائری رک جائے، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت مجھے ویسے ہی اپنا دشمن نمبر ون سمجھتی ہے‘ لینڈ گریبرز بھی میرے خلاف ہیں اور ریاستی ادارے بھی خوش نہیں ہیں، یہ سب ملکر اب دباؤ بڑھانے کا کوئی آپشن نہیں چھوڑ رہے، ان سے پوچھا گیامالم جبہ کا ریفرنس کب دائر ہو گا اور کیا پرویز خٹک بھی گرفتار ہونگے، توانہوں نے کہایہ اب چند دن کی بات ہے‘ ریفرنس مکمل ہو چکا ہے‘ آپ بہت جلد پرویز خٹک کو بھی لاک اپ میں دیکھیں گے بس مجھے صرف ایک خطرہ ہے، میں صرف پرویز خٹک کی صحت سے ڈرتا ہوں‘ یہ اگر گرفتار ہو گئے اور انھیں کچھ ہو گیا تو نیب مزید بدنام ہو جائیگا لیکن اسکے باوجود یہ ہو کر رہے گا پرویز خٹک کو بھی اپنی کرپشن کا حساب دینا ہو گا،اس سوال پر کہ نیب نے صرف پنجاب کو فوکس کیوں کر رکھا ہے ، وہ بولے ’’پنجاب بڑا صوبہ ہے‘ میاں برادران کسی نہ کسی شکل میں 30 سال پنجاب میں حکمران بھی رہے لہٰذا زیادہ تر میگا کیسز پنجاب میں ہوئے، بلوچستان کے تین سابق چیف منسٹرز (ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ‘ نواب اسلم رئیسانی اور نواب ثناء اللہ زہری) انکوائریاں اور ریفرنس بھگت رہے ہیں،نواب اسلم رئیسانی کو میں نے اپنے افسر کے ذریعے پیغام پہنچایا وفاقی حکومت نے آپکو 99 کروڑ روپے دیئے تھے‘ آپ نے یہ رقم چند لوگوں میں تقسیم کر دی‘ آپ کا پہلا چیک آپکے بھائی کے اکاؤنٹ میں گیا تھا‘ آپ گرفتاری سے بچنا چاہتے ہیں تو یہ رقم واپس کر دیں‘ نواب اسلم رئیسانی نے ہم سے تین ماہ کی مہلت مانگ لی ، اگر تین ماہ میں رقم واپس نہیں کرتے تو یہ بھی گرفتار ہونگے، سپریم کورٹ کے حکم پر آصف زرداری اور فریال تالپور کے مقدمے راولپنڈی اور اسلام آباد شفٹ ہو گئے،یہ ضمانت پر ہیں، جس دن ضمانت منسوخ ہو گی دونوں بھی گرفتار ہو جائینگے ،بس چند دن کی بات ہے، آصف علی زرداری جس دن انکوائری کیلئے پیش ہوئے تھے انکی ٹانگیں اور ہاتھ لرز رہے تھے‘ انھوں نے گرین ٹی کا کپ مانگا‘ ہمارے افسر نے پیش کر دیا‘ آصف علی زرداری نے کپ اٹھایا لیکن کپ انکے ہاتھ میں لرز رہا تھا ، شاید فریال تالپور کو خاتون ہونے کی وجہ سے رعایت مل جائے لیکن آصف علی زرداری نہیں بچ سکیں گے، میاں برادران کا ایشو بھی سیدھا سادہ ہے،ہم نے شہباز شریف کے داماد علی عمران کو بلا کر پوچھا صاف پانی کمپنی نے آپکو 48 کروڑ روپے کی پے منٹ کیوں کی ؟ ہم نے کاغذات بھی اسکے سامنے رکھ دیئے‘ وہ بولا میں نے صاف پانی کمپنی کو اپنا پلازہ کرائے پر دیا تھا‘ یہ کرائے کی رقم تھی ، میں رات کو ٹیکسی لیکر علی عمران کے پلازے پر گیا
پلازہ ابھی زیر تعمیر تھا‘ ہم نے اگلے دن علی عمران کو دوبارہ بلا لیا‘ ہم نے اس سے پوچھا‘ آپکا پلازہ ابھی زیر تعمیر ہے لیکن آپ نے اسکا کرایہ وصول کر لیا، علی عمران گھر گیا اور اگلے دن دبئی بھاگ گیا،ہم نے سلمان شہباز کو بلا کر پوچھا‘ آپ کو اربوں روپے باہر سے کیوں آتے رہے‘ وہ بولے مجھے چند دن دیدیں ، ہم نے وقت دیدیا اور وہ بھی لندن بھاگ گئے‘ ہمارے پاس حمزہ شہباز شریف کیخلاف بھی تمام ثبوت موجود ہیں ، میں نے عدالتی بیک گراؤنڈ کو سامنے رکھ کر سوالنامہ تیار کیا‘ یہ عدالتی آڑ کے پیچھے چھپ رہے تھے ، بس انکی ضمانت منسوخ ہونے کی دیر ہے اور یہ بھی اندر ہونگے‘ اگر ملک سے بھاگ نہ گئے تو! ان سے پوچھا گیا آپکے بارے میں تاثر ہے کہ آپکی کلہاڑی صرف سویلین پر گرتی ہے توبولے میں نے اپریل 2018ء میں جنرل جاوید اشرف کیخلاف رائل پام گالف کلب کا ریفرنس بنایا ، یہ آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی ہیں، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں بھی ریٹائرڈ فوجی افسروں کے نام آئے‘ ہم نے ان کیخلاف بھی انکوائری شروع کرا دی‘ یہ بھی حوالات میں جائینگے‘ ڈی ایچ اے سٹی میں میرے اپنے 43 لاکھ روپے پھنس گئے تھے‘ یہ لوگ چیک لیکر میرے پاس آ گئے میں نے ان سے کہا پہلے دوسرے 1385 لوگوں کو پیسے واپس کریں ، کیا یہ بھی سویلین ہیں؟ آپ اگلی بار آئیں گے تو نان سویلین ریفرنسز کی فہرست آپکے سامنے رکھ دوں گا ملک میں سب کا احتساب ہو رہا ہے‘ ہم نے کسی پارٹی اور محکمے کو رعایت نہیں دی،ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپکو خریدنے کی کوشش کی گئی تھی، تو بولے مجھے صدر پاکستان بنانے کی پیشکش تک ہوئی تھی ۔