لاہور (ویب ڈیسک) دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جرمن فوج کو فرانس خالی کرنے کا حکم ملا جرمن سپہ سالار نے فوجیوں کو ایک جگہ جمع کر کے کہا ۔ ’ہم نازی جنگ ہار چکے ہیں ۔ فرانس ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے ۔یہ تو سچ ہے ہی ساتھ میں یہ بھی سچ ہے کہ نامور کالم نگار جمیل فاروقی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید اگلے پچاس برسوں تک ہمیں دوبارہ فرانس میں داخلے کی اجازت نہ ملے ۔ اس لئے آپ کو حکم دیاجاتا ہے کہ پیرس کے عجائب گھروں، نوادرات سے بھرے خزانوں اور ثقافت سے مالا مال ہنر کدوں سے جو کچھ سمیٹ سکتے ہوسمیٹ لو۔ ساتھ ہی یہ بھی حکم دے ڈالا کہ جب فرانسیسی اس شہر کا اقتدار سنبھالیں تو انہیں جلے ہوئے پیرس کے علاوہ کچھ نہ ملے ‘۔ سپہ سالار کا حکم تھا ، سب فوجی عجائب گھروں پر ٹوٹ پڑے اور اربوں روپے کی نوادرات اٹھالائے ۔ان میں ڈوئچے کی مونا لیز ا کی تصویر ،وین گوہ کی تصاویر ، وینس ڈی ملو کا مرمریں مجسمہ ۔ ۔ غرض کہ جرمن فوجیوں نے کچھ بھی نہ چھوڑا ۔جب عجائب گھر اور ہنر کدے نوادرات سے خالی ہو گئے تو سپہ سالار نے تمام مال ایک ٹرین پر رکھنے اورٹرین کو جرمنی لے جانے کا حکم دیا ۔ٹرین روانہ تو ہو گئی لیکن شہر سے با ہر نکلتے ہی اس کا انجن خراب ہوگیا ۔ انجینئر آئے ، انجن ٹھیک کیا اورٹرین کو پھر روانہ کردیا گیا ۔کم وبیش دس کلومیٹر بعد ٹرین کے وہیلز جام ہو گئے ۔ گاڑی پھر سے رک گئی اور جرمن فوجیوں اور مسافروں کو ایک نئی مصیبت سے دوچار ہونا پڑا ۔انجینئر پھر سے آئے ، انہوں نے تکنیکی مسئلہ پھر سے حل کیا اور ٹرین پھر روانہ ہو گئی ۔ابھی ٹرین چلی ہی تھی کہ شور اور واویلا مچ گیا ۔ اڑتی اڑتی اطلاع یہ ملی کہ ٹرین کا بوائلر پھٹنے کی وجہ سے ٹرین روکنا پڑ رہی ہے ۔ انجینئر آئے ، ٹرین کا بوائلر مرمت کیا گیا اور ٹرین پھر سے چل پڑی ۔پر نحوست تھی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔ابھی تھوڑا سفر ہی طے کیا ہوگا کہ پریشر بنانے والے پسٹن جواب دے گئے ۔ انجینئر آئے ، پسٹن مرمت ہوئے اور ٹرین روانہ کردی گئی ۔ٹرین بار بار خراب ہوتی رہی اور جرمن انجینئرزاسے بار بار ٹھیک کرتے رہے ۔یہاں تک کہ فرانس کا اقتدار فرانسیسیوں نے سنبھال لیااور ٹرین ابھی فرانس کی حدود کے اندر موجود تھی ۔ معاملات تو گھمبیر تھے لیکن حالات و واقعات کی نزاکت سے قطع نظر ٹرین کے ڈرائیور کو پیغام ملا کہ’ موسیو ۔۔ بہت شکریہ ، اب ٹرین جرمنی نہیں واپس پیرس آئے گی‘ ۔ یہ اعلان سننا تھا کہ ٹرین کا ڈرائیور سیٹ سے اٹھا ، مکے ہوا میں لہرائے اور نعرے مارتا ہوا پیرس روانہ ہوگیا ۔ اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ڈرائیور پیرس پہنچا تو فرانس کی ساری لیڈرشپ اس کے استقبال کے لئے کھڑی تھی ۔ڈرائیور پر گل پاشی کی گئی اور مائیک اس کے ہاتھ میں تھما دیا گیا ۔ ڈرائیور ۔۔ پبلک سے گویا ہوتے ہوئے کہتا ہے ۔جرمن گدھوں نے نوادرات تو ٹرین میں بھر دئیے ۔ لیکن یہ بھول گئے کہ ڈرائیور جرمن نژاد فرانسیسی ہے ۔اور اگر ڈرائیور نہ چاہے تو گاڑی کبھی منزل مقصود پر نہیں پہنچا کرتی ‘۔کچھ ایسا ہی حال ہمارے ملک کی معیشت کا بھی ہے ۔جب ملک کے خزانے کی چابی فصلی بٹیروں اور سوٹ ٹائی میں ملبوس امریکہ یا یورپ پلٹ میر جعفروں اور میر صادقوں کے حوالے کر دی جائے گی تو ٹرین کیسے چلے گی۔اور یہ تونئے پاکستان کا ’ پائلٹ پراجیکٹ ‘ ہے جس کی بنیاد ہی اس منشور پر رکھی گئی تھی کہ ملک کے اندر ملازمتوں کا سونامی لایا جائے گا ، روپے کی قدر بڑھے گی ، ڈالر روپے کا مقابلہ نہیں کر پائے گا ، خزانے کا پیٹ بھر دیا جائے گا ، گردشی قرضوں کا بوجھ کم ہوگا اور لوگوں کا اعتماد بڑھے گا ۔ لیکن اس پائلٹ پراجیکٹ کے تو حالات یہ ہیں ، کہ گردشی قرضے ڈیجٹس میٹر پھاڑ رہے ہیں ، معیشت تباہی کے دہانے پر ہے ۔ ڈالر بلند پرواز ہے جبکہ روپیہ بے قدری کی رسوائی سے دوچار ہے ۔ جو نہ کرنے کے وعدے وعید کئے گئے تھے وہ کرنا پڑ رہا ہے ۔ عالمی مالیاتی ادارے کے پاس نہیں جاتا تھا ، جانا پڑا ہے اور گھٹنے ٹیک کر جانا پڑا ہے ۔یہاں تک کہ عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط کے عین مطابق کابینہ تک میں ردوبدل کرکے من پسند افراد کو عہدوں سے نوازا گیا ہے۔اور حد تو یہ کہ مذاکرات سے تاثر ایسے ملا جیسے آئی ایم ایف کی آئی ایم ایف سے ہی ڈیل ہو رہی ہو ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم طرز کی ایسیٹ ڈکلیریشن اسکیم متعارف کرا دی گئی جس کی ماضی میں خان صاحب خود مخالفت کرتے رہے ہیں ۔اب وزیر اعظم پاکستان نئے پاکستان نامی اس ملک کے چیف ہیں اور اس پائلٹ پراجیکٹ کی نادر نوادرات سے لدی معاشی ٹرین کے ڈرائیوربظاہر تو پاکستانی ہیں لیکن انہیں پاکستانیوںکے مفادات اور مسائل سے کوئی غرض نہیں ہے۔ چاہے وہ عبدالحفیظ شیخ ہوں ، رضا باقر ہوںیاپھر شبر زیدی ، ان کی ہمدردیاں عالمی مالیاتی ادارے ، عالمی طاقتوں اور ٹیکنوکریٹک ذہن رکھنے والے لوگوں سے زیادہ اور پاکستان سے کم ہیں ۔ اب سوچئے کہ ٹرین کا ڈرائیور ہی ٹرین والوں سے مخلص نہیں تو کیا خاک ہم منزل مقصود پر پہنچیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ حالات کیا رخ اختیار کرنے والے ہیں ۔ تو حضور ! کچھ ہی دن میں ڈالر ایک سو ستر سے اسی تک جمپ لگانے والا ہے ۔ مہنگائی کا سونامی بجٹ کے بعد پاکستانیوں کا منتظر ہے ۔ بے یقینی کی کیفیت یو ں ہے کہ سرمایہ کار پاکستان سے بھاگنا چاہ رہا ہے ۔ حالات یہ ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے ذخائر میں صرف سو ارب ڈالر کا فرق رہ گیا ہے ۔ اسٹاک ایکس چینج کو دیکھیں تو ہفتے کا آغاز ہی انتہائی بحرانی کیفیت سے ہوا اور سرمایہ کاروں کے ایک ہی دن میں ایک سو اکیاسی ارب روپے ڈوب گئے ۔ مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ رومرہ استعمال کی اشیا ء اور اشیائے خوردونوش عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں ۔روٹی جو کبھی چھے یا سات روپے کی دستیاب تھی اب دس روپے سے تجاوز کر گئی ہے ۔ پینے کی ڈیڑھ لیٹر کی بوتل کی قیمت ساٹھ روپے جبکہ ادویات کا تو نہ ہی پوچھئے ۔ یہ سچ ہے کہ خان صاحب کو معیشت بری حالت میں ملی ۔ انہیں وقت ملنا چاہیے لیکن سمت کا تعین یہ واضح کردیتا ہے کہ مستقبل قریب میں حالات کیا بنیں گے ۔ نئے پاکستان کا پائلٹ پراجیکٹ فلاپ ہوچکا۔ وزارتو ں کا ردوبدل اور عالمی قوتوں کی ایما پر افراد کی تقرری اس بات کی غماز ہے کہ تبدیلی کے نعرے کی تدفین ہو چکی ۔ پیچھے بچ گیا ہے صرف خود کو کھوکھلے ہونے سے بچانا اور گورنمنٹ کرتے رہنا ۔ اس کے لئے سارے جتن کئے جا رہے ہیں۔ ملک میں معاشی ایمرجنسی کی سی کیفیت ہے۔ اور اگر بجٹ میں عوام کو برائے نام بھی ریلیف نہ ملا تو لوگ سڑکوں پر ہوں گے ۔ دھرنے ، احتجاج ہوں گے ۔ اس وقت تک ملک دیوالیہ ہوچکا ہوگا ۔ اور شاید چاہنے والا بھی یہی چاہ رہا ہے کہ حالات یہی رخ اختیار کریں ۔ مگر بات اتنی سی ہے کہ اگر پہلا پائلٹ پراجیکٹ فلاپ ہوا ہے تو عطائی ڈاکٹر سے دل کی جراحی کرنے کی بجائے مریض کو کسی مناسب فزیشن کے ہی حوالے کیا جائے تو شاید مرض یو ں نہ بڑھے ۔ پائلٹ پراجیکٹ پارٹ ٹو کو دونمبری اور سوٹ بوٹ پہنے بہروپیوں اور میر جعفروں اور میر صادقوں سے بچانا خان صاحب کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ورنہ نئے تو کیا پرانے پاکستان کا بھی کچھ نہیں بچے گا۔