اس معصوم کو کیا خبر تھی کہ وہ جس نازک وجود سے اپنے گھر کو مہکائے ہر گھڑی چہکتی پھرتی ہے صرف دس سال بعد کسی ویران جنگل میں اجنبی جھاڑیوں کی آغوش میں اس حالت میں ملے گا کہ اماں اور بابا بھی پہچان نہ پائیں گے۔ صد افسوس کہ اس کا حسین و منفرد نام جس نے تجویز کیا ہو گا اسے بیس مئی کی شام اپنا ننھا فرشتہ محفوظ و سلامت واپس نہ ملا۔
سوال یہ نہیں کہ فرشتہ کس قبیلے سے تعلق رکھتی تھی، کس صوبے سے تھی، کونسی زبان بولتی تھی، سوال یہ ہے کہ دارالحکومت اسلام آباد سے جسے سیف سٹی بھی کہا جاتا ہے، آبادی کے بیچوں بیچ ایک کمسن بچی گھر سے کھیلنے نکلتی ہے تو کیوں اور کیسے اغوا ہو جاتی ہے؟ فرشتہ کے والد گل نبی کے مطابق وہ تلاش میں ناکامی پر فوری طور پر تھانہ شہزاد ٹاون میں اطلاع دیتا ہے تو پولیس صدمے سے دوچار مجبور باپ کے سامنے یہ ہتک آمیز رائے دیتی ہے کہ اس کی دس سالہ بیٹی کے کسی سے تعلقات ہوں گے لہذا خود گھر سے بھاگ گئی ہو گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متاثرہ خاندان کی فوری داد رسی کی بجائے ایسی توہین اور روایتی ٹال مٹول کے بعد اہل خانہ کے احتجاج پر ان کی تشفی اور خانہ پُری کے لیے صرف روزنامچے میں رپٹ کا اندراج کیوں کیا گیا؟ قانون کے مطابق بلا تاخیر ایف آئی آر درج کر کے با ضابطہ اور سنجیدہ تفتیش اور تلاش کا آغاز کیوں نہ کیا گیا؟ پندرہ سے بیس مئی تک مجرمانہ غفلت برت کر انتہائی قیمتی وقت ضائع کر دیا گیا۔ اس دوران متعلقہ ایس ایچ او اور تفتیشی افسر کے سر پر جوں تک نہ رینگی تا آنکہ سڑکوں اور سوشل میڈیا پر احتجاج کے شدت پکڑنے پر مجبوراً ایف آئی آر درج ہوئی اور اگلے ہی روز بچی کی دریدہ بریدہ نعش برآمد ہو جاتی ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس سنگین نا اہلی اور غیر پیشہ ورانہ رویے کے نتیجے میں بچی کی آبروریزی اور قتل کا ذمہ دار متعلقہ تھانہ کیوں نہیں ہے؟
یہ گویا دستور بن چکا ہے کہ کسی شکایت کے اندراج کے لیے عام شہری کو تھانے میں داخل ہوتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔ عزت نفس، سماجی مقام و مرتبہ گروی رکھ کر اسے سپاہی سے لیکر داروغہ تک ہر ایک کی بار بار منت سماجت کرنا پڑتی ہے لیکن تگڑی رشوت، کسی مقامی معزز، کونسلر، سیاسی یا سرکاری عہدیدار کی سفارش کے بغیر ایف آئی آر کبھی درج نہیں ہو پاتی۔ قانون کی راہ میں خود پولیس آڑے آ کر یہ عمومی عذر لنگ بھی پیش کرتی چلی آئی ہے کہ عدالتوں میں پہلے سے زیر سماعت مقدمات کی بھر مارکی بنا پر اوپر سے ہدایات ہیں کہ ایف آئی آر کے اندراج اور چالان پیش کرنے کی تعداد کم رکھی جائے۔ چلیں یہ انوکھی منطق تسلیم کر بھی لی جائے تو کیا اڑتی چڑیا کے پر گن لینے اور پاتال سے لیکر دل کی گہرائی تک پہنچ کر ہر بات کا سراغ لگا لینے کی مبینہ خدا داد صلاحیت اور خودساختہ تجربے کے حامل تھانہ شہزاد ٹاون کے بے تاج بادشاہوں کو ایک معصوم بچی کی گم شدگی کا معاملہ بھی غیر اہم محسوس ہوا تھا اور اس کے اہل خانہ کی مسلسل چار روز تک دہائی مصنوعی اور فریاد مشکوک دکھائی دی تھی؟ اب رہے گھسے پٹے بیانات اور پرانے تاخیری حربے تو کون یقین کرے جب زبان خلق نقارہ خدا بننے کے قریب ہو، امن مخدوش دکھائی دے، ٹوئٹراور فیس بک تعاقب میں ہوں تو اعلان کر ڈالا کہ فلاں افسر(چھوٹے درجے کا)، فلاں اہلکار معطل کر دیا گیا، تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی، اڑتالیس گھنٹوں میں رپورٹ طلب، مجرموں سے آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے گا، ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔
گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے ہر دور حکومت میں پولیس اصلاحات کا غلغلہ رہا ہے لیکن تھانے کو دارالامن پکارنے، یونیفارم کا رنگ بدلنے اور دیواروں پر، پولیس کا ہے فرض مدد آپکی، جیسے خوشنما نعرے لکھنے جیسے ظاہری اقدام اس وقت تک لیپا پوتی کے زمرے میں آئیں گے جب تک رشوت، سفارش دھونس ،تشدد اور سیاسی مداخلت کا راستہ بند نہیں ہوتا۔ موٹروے پولیس کی مثبت مثال اور عمدہ کارکردگی مد نظر رکھتے ہوئے روایتی پولیس فورس کی جدید سائنسی اور نفسیاتی خطوط پر تربیت، انسانی حقوق سے آگاہی اور احترام آدمیت سے شناسائی شاید آج انہیں جدید اسلحے سے لیس کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔ موجودہ پولیس کا ادارہ جاتی ڈھانچہ مرمت نہیں ازسرنو تعمیر کا متقاضی ہے جس میں بہت سی پرانی اینٹیں ناقابل استعمال قرار دینا پڑیں گی۔ ورنہ ناکوں، چوکیوں اور تھانوں میں بداخلاقی اور بدسلوکی تو رہی ایک طرف جب پولیس اہلکاروں کی جرائم میں بنفس نفیس ملوث ہونے کی متعدد مثالیں ملیں تو کون غریب انہیں قانون کا رکھوالا ماننے پر راضی ہوگا۔
کہا جاتا ہے انگریز حکمرانوں نے برصغیرمیں سرکاری عمارتوں کی تعمیر کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھا کہ مرکزی داخلی دروازے میں ایک چھوٹا کھڑکی نما دروازہ رکھا جائے اور افسران کے کمروں کے دروازے کی چوکھٹ کی اونچائی بھی کم رکھی جائے تاکہ سائل سر جھکا کر اندر آئے۔ وہ حکمران کب کے رخصت ہوئے مگر ڈیوڑھیوں کے در بھی وہی ہیں اور اندر موجود صاحبان اختیار کے سر بھی۔ استغاثہ کرنے والے ہر فریادی کو تھانے میں داخل ہوتے وقت پگڑی اور ٹوپی سنبھال کر ہی رکھنا پڑتی ہیں۔ مزید برآں اپنے جائز حق کے حصول کے لیے درخواست میں بخدمت جناب، حضور، جناب عالی، بندہ پرور، مودبانہ گزارش، فدوی، عرض گزار، آپ کا خادم جیسے قدیم غلامانہ دورکے یادگار الفاظ انسان کی تحقیرکے لیے کافی ثابت ہوتے ہیں۔ یہ ذہنیت بدلنا ہوگی کہ عمال اور حکمران تو قوم کے خادم اور معمار ہوتے ہیں نہ کہ بزعم خود بادشاہ سلامت بن کر عوام کو مجبور و زیردست بنانے والے۔
پولیس کے موجودہ فرسودہ نظام کی اصلاح نہ کی گئی تو تھانوں کے ایسے بے تاج بادشاہ قانون کی من پسند تشریح اور نفاذ کرتے رہیں گے۔ ریاستی سطح پر قانون کی مساوی اور حقیقی بالا دستی کا خواب کبھی پورا نہ ہو سکے گا۔ احساس تحفظ کو ترستے تمام والدین کو قصورکی زینب اور علی پورکی فرشتہ کی چیخیں بازگشت بن کر، رلاتی اور دہلاتی رہیں گی۔