لاہور: گذشتہ روز میران شاہ میں پاک فوج کی چیک پوسٹ پر دہشتگردوں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 5 فوجی اہلکار زخمی ہوگئے جبکہ 3 حملہ آور ہلاک جبکہ 10 افراد زخمی ہوئے تھے، میران شاہ کی چیک پوسٹ پر کیے جانے والے حملے سے متعلق اہم انکشافات سامنے آ گئے ہیں۔
قومی اخبار میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق پاک فوج کی چیک پوسٹ پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کئی روز قبل کی گئی تھی ۔اس حوالے سے 4 سیاسی جماعتوں کے کچھ رہنما بھی نہ صرف اس سے آگاہ تھے بلکہ انہوں نے درپردہ حملہ کرنے والوں کو سپورٹ کرنے کی بھی یقین دہانی کروا رکھی تھی۔ ذرائع کے مطابق شمالی وزیر ستان میرانشاہ میں کس طرح امن خراب کیا جائے ، کس طرح دوبارہ دہشتگردوں را، موساد اور این ڈی ایس کے وہاں کیمپ بنائے جائیں ، وہاں پاکستان دشمن سرگرمیاں کس طرح دوبارہ شروع کی جائیں اورپاکستان کے اہم ترین ادارے کے خلاف کس طرح پشتونوں کو کیا جائے ، اس حوالے سے پی ٹی ایم کو خاص ٹارگٹ دیا گیا تھا اور اسی ٹارگٹ پر پی ٹی ایم کے رہنما کچھ عرصہ سے بہت تیزی کے ساتھ کام کر رہے تھے ۔ اس ضمن میں پی ٹی ایم دو حصوں میں کام کر رہی تھی، پی ٹی ایم کا ایک حصہ، جو منظور پشتین کے ساتھ مل کر افغانستان، بھارت کی خفیہ ایجنسیوں اور کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ ساتھ دیگر کا لعدم تنظیموں کے رہنماؤں کے ساتھ رابطوں میں تھا، اس ضمن میں ان کی آپس میں میٹنگز بھی ہو چکی تھیں اور بلوچستان کے کئی مفرور کا لعدم تنظیموں کے افراد بھی سازشوں میں مکمل شامل ہیں۔
جبکہ پی ٹی ایم کا دوسرا حصہ، جس میں محسن داوڑ، علی وزیر اور کچھ اور افراد پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطوں میں تھے اور پاکستان کے اہم ترین قومی ادارے کے خلاف باقاعدہ زہر اُگل رہے تھے اور اس سلسلہ میں مختلف جماعتوں سے تعاون بھی مانگ رہے تھے ۔ ذرائع کے مطابق جس وقت آرمی کی چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا تو اس سے پہلے باقاعدہ افغانستان کے رین اور بھارت کے چار ٹی وی چینلز پر یہ خبر نشر ہوتی رہی کہ پُر امن جلوس پاک فوج کے خلاف مظاہرہ کر رہا ہے جبکہ اس وقت نہ تو مظاہرہ شروع ہوا تھا اور نہ ہی ایسی کوئی اطلاعات تھیں۔ ذرائع کے مطابق اس منصوبہ بندی کا یہ بھی حصہ تھا کہ چیک پوسٹ پر حملہ کے بعد فوجی جوانوں کو شہید کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہی افراد پر فائرنگ کر کے پھران کی لاشوں کو پاکستان کے اہم اداروں کے خلاف استعمال کیا جائے اور اس سازش کے بعد را ،موساد، این ڈی ایس اور کا لعدم تحریک طالبان کے افراد سے مزید فوج پر حملہ کروائے جائیں اور ان کے ساتھ ساتھ میڈیامیں کچھ موجود افراد اور دیگر ایسی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں، جن میں ایم کیو ایم لندن، محمود اچکزئی گروہ، اے این پی سمیت دو بڑی سیاسی جماعتوں کے افراد اپنے کارکنوں کو ان کے لیے احتجاج کرنے کا کہیں گے اور پُر تشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع کر کے ایسا ماحول بنائیں گے کہ جنوبی وزیر ستان سے آرمی کی چیک پوسٹیں ختم ہوں اور وہاں دوبارہ دہشتگردوں اور غیر ملکی ایجنسیوں کے اڈے بن سکیں ۔اخباری رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ذرائع نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اس حملہ اور سازش کو پایا تکمیل پہنچانے کے لیے کتنی فنڈنگ ہوئی تھی ،اس حوالے سے بھی ثبوت مل گئے ہیں۔