لاہور(ویب ڈیسک) سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پاکستان حوالگی کے طریقۂ کار پر بات چیت کے لیے برطانیہ اور پاکستان میں مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہو گئے۔ مفاہمت کی یادداشت پر ایک برطانوی عہدیدار اور پاکستان کی طرف سے وزیراعظم کے نامور صحافی شہزاد ملک بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں۔۔۔۔ معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے دستخط کیے ہیں اور شہزاد اکبر نے اس معاہدے کی تصدیق سماجی رابطے کی وہیب سائٹ پر بھی کی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط مجرموں کے تبادلے کا معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے کیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کے تبادلے کے بارے میں مذاکرات ہوتے رہے ہیں اور اس ضمن میں ایک معاہدے کا مسودہ تیار ہے لیکن اس پر دستخط نہیں کیے گئے۔ وزارت قانون کے ایک اہلکار عبدالرشید کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کی یادداشت قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی عدم موجودگی میں قانونی بنیاد فراہم کرے گی۔اس سے پہلے وفاقی حکومت اشتہاری قرار دیے گئے سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کو وطن واپس لانے کے لیے انٹرپول سے رابطہ کر چکی ہے، تاہم انٹرپول کے حکام نے اسحاق ڈار کو وطن واپس لانے کے لیے حکومت کی طرف سے فراہم کردہ دستاویزات کو ناکافی قرار دیا تھا۔ یاد رہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف اسلام آباد کی احتساب عدالت میں آمدن سے زیادہ اثاثوں کے ریفرنس میں مسلسل غیر حاضری کے سبب انھیں اشتہاری قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کی پاکستان میں موجود جائیداد کی قرقی کے احکامات جاری کیے تھے۔اسحاق ڈار کے خاندان نے اس عدالتی فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔اسحاق ڈار علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے تھے اور تاحال واپس نہیں آئے۔ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف یہ الزام عائد کرتی ہے کہ ملزم اسحاق ڈار کو بیرون ملک فرار کروانے میں اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا جہاز استعمال کیا گیا۔ قومی احتساب بیورو کے سابق ایڈشنل پراسیکیوٹر جنرل عامر عباس کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی ملزم کی حوالگی کے بارے میں بات چیت کا آغاز ایک اچھا شگون ہے لیکن اس وقت اس کا کوئی فائدہ نہیں جب تک اس پر عملدرآمد نہیں ہو جاتا۔ انھوں نے کہا کہ برطانیہ کی طرف سے ایک بھی ایسی مثال موجود نہیں ہے جس میں انھوں نے کسی ملزم کو پاکستان کے حوالے کیا ہو۔راجہ عامر عباس کا کہنا تھا کہ جب وہ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب تھے تو وہ امریکہ میں روپوش ہونے والے پنجاب بینک کے صدر ہمیش خان کو گرفتار کر کے پاکستان لائے تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بھی اسی صورت میں ممکن ہوا کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی قانونی معاونت کا معاہدہ موجود ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار ان کی پاکستان میں موجود جائداد کی قرقی کے احکامات جاری کیے تھے۔ حکمران جماعت اس مفاہمتی یادداشت کو ایک بڑا اقدام قرار دے رہی ہے اور حکومت پُرامید ہے کہ اس سے ملزم اسحاق ڈار کو وطن واپس لانے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں مدد ملے گی۔ نیب کے ایک اور سابق ایڈشنل پراسیکیوٹر جنرل ذوالفقار بھٹہ کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ معاہدہ کسی ایک شخص سے ہی متعلق ہے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی تو صرف معاہدے کی یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں ایک عرصہ درکار ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ اگر اس معاہدے پر فوری طور پر عملدرآمد ہو بھی جاتا ہے تو پھر بھی اس میں کم از کم ایک سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ ذوالفقار بھٹہ کا کہنا ہے کہ اگر اسحاق ڈار برطانیہ سے کسی دوسرے ملک چلے جاتے ہیں تو پھر ایسے معاہدے کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔ پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین کامران مرتضی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ملزمان کے تبادلے سے متعلق مذاکرات کےلیے ہونے والے یادداشت کے معاہدے پر دستخط قانونی طور پر کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ا ُنھوں نے کہا کہ ابھی تو صرف دونوں ممالک اس ضمن میں مذاکرات کرنے پر آمادہ ہوئے ہیں اور یہ مذاکرات کب شروع ہوں گے یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ اگر ان دونوں ممالک کے درمیان ملزموں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تو یقینی طور پر اس معاہدے کو برطانیہ کی عدالت میں چیلنج کیا جائے گا اور اس پر عدالتی فیصلہ آنے میں بھی ایک عرصہ درکار ہو گا۔ کامران مرتضی کا کہنا ہے کہ بظاہر دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے کی یادداشت پر دستخط کی کارروائی کے پیچھے جو سوچ کارفرما ہے اس کے مطابق اس پیش رفت کا واحد مقصد اسحاق ڈار کو وطن واپس لانا ہے لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔