وہ سپرمین عمران خان کہاں ہیں جو دعووں اور وعدوں کی گانٹھ سر پر رکھے ایوان وزیراعظم میں داخل ہوئے تھے، جن کے برسر اقتدار آتے ہی پاکستانیوں نے خود بخود ٹیکس دینا شروع کردینا تھا، ملک سے کرپشن کا جنازہ نکل جانا تھا، پولیس کو ایماندار ی کے سرٹیفکیٹس ملنا شروع ہوجانے تھے، غیر ملکیوں نے نوکریوں کی تلاش میں پاکستان کا رخ کرنا تھا …. افسوس یہ کہ نہ تو ابھی تک وہ سپرمین عمران خان نظر آئے ہیں اور نہ وہ سپر مین کی حکومت نظر آئی ہے اور سال پورا ہونے کو ہے۔
اس کے بجائے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر متمکن عمران خان مجبور، لاچار، بے بس، بے یارومددگار شخص کے طور پر نظر آتے ہیں جیسے کبھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے قابض ہوجانے کے بعد بہادر شاہ ظفر زنداں خانے میں بیٹھے نظر آتے تھے !
ہمارے ایک جاننے والے کی چھے بیٹیاں ہیں اور محدود ذریعہ آمدن کی وجہ سے وہ اپنی زندگی اللہ توکل ہی گزار رہے ہیں ، یوں کہئے کہ اپنے بہن بھائیوں کے رحم و کرم پر ہیں ، جہاں کام کرتے ہیں وہاں وقت پر تنخواہ نہیں ملتی ، ملتی ہے تو ان سے خرچ ہو جاتی ہے ، اس لئے ہر وقت بہن بھائیوں کے آگے ہاتھ پھیلائے رکھتے ہیں۔
ایک مرتبہ ہم نے ان کی سب سے چھوٹی صاحبزادی سے پوچھا کہ آپ کی نظر میں آپ کے پاپا کیا ہیں؟ تو وہ جھٹ سے بولی میرے پاپا سپرمین ہیں ، وہ ہوا میں اڑ سکتے ہیں اور سب کو مار سکتے ہیں ۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی دلدادہ یوتھ کا بھی یہی حال ہے کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کو سپرمین سمجھتی ہے جو ان کے نزدیک ہوا میں اڑسکتے ہیں اور جس کو چاہے ٹھکائی کرسکتے ہیں۔ عمران خان کے بارے میں ان کا تاثر اور خیال وہی ہے جو ہمارے جاننے والی کی سب سے چھوٹی صاحبزادی کا اپنے پاپا کے بارے میں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ جن کو عمران خان سے توقعات ہیں ، بڑی توقعات ہیں ۔ جب بڑی توقعات پوری نہیں ہوتی ہیں تو چھوٹی چھوٹی مایوسیاں پیدا ہوتی ہیں اور جب بہت سے چھوٹی چھوٹی مایوسیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں تو وہ ایک بہت بڑی مایوسی میں تبدیل ہوجاتی ہیں ۔ پاکستانیوں کے ساتھ اس وقت ایسا ہی ہو رہا ہے ۔
انہیں چھوٹی چھوٹی مایوسیاں لاحق ہوتی جا رہی ہیں لیکن ڈرتے ہوئے کہتے اس لئے نہیں ہیں کہ کہیں عمران خان خودکشی نہ کرلیں
یہ بات قابل توجہ ہے کہ عمران خان بطور اپوزیشن رہنما کے جس معیشت کے بل بوتے پر بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے وہ ایک چلتی ہوئی معیشت تھی لیکن خود انہوں نے اس چلتی معیشت کو جس نہج پر پہنچادیا ہے وہاں وہ اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ”گھبرانا نہیں!“
انہیں ایک چلتی ہوئی معیشت ملی تھی اور انہوں نے اسے ایک بند معیشت میں تبدیل کرکے ملبہ پچھلوں پر ڈالنا شروع کردیا ہے ۔
ان کا حال یہ ہے کہ وہ گلی گلی شور مچاتے پھر رہے ہیں کہ ان کے بڑوں نے سوچ کر گھر نہیں بنایا ہے کیونکہ کسی دریچے سے ہوا کا کوئی جھونکا نہیں آتا ، یعنی !
کوئی دریچہ ہوا کے رخ پر نہیں بنایا
مرے بزرگوں نے سوچ کر گھر نہیں بنایا
لیکن خود ان میں اتنی صلاحیت نظر نہیں آرہی ہے کہ گھر کو نئے سرے سے بنالیں ، گھر تو چھوڑیں وہ تو کوئی ایک دریچہ بھی ہوا کے رخ پر نہیں بنا پار ہے ہیں ، اگر ان کی جانب سے پچھلوں کو کوسنے کا عالم یہی رہا تو وہ دن دور نہیں جب وہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کو بھی کوستے نظر آئیں گے کہ وہ نیا پاکستان اس لئے نہیں بنا پا رہے ہیںکہ پاکستان ہی ٹھیک نہیں بنایا گیاتھا !
ایسا لگ رہا ہے کہ ایک کرکے عمران خان کی ساری بیساکھیاں آئی ایم ایف کھینچتا جارہا ہے اور ان کی جگہ ٹیکنوکریٹس کے نام پر موجودہ حکومت کی بانہوں تلے اپنی مرضی کے ڈنڈے دے دیئے گئے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے اختیارات کو محدود کردیا گیا ہے ، ان کی عملداری بنی گالا سے شروع ہو کر ٹوئیٹر اکاﺅنٹ پر ختم ہوجاتی ہے ۔ کیا ہی اچھا ہو اگر وزیر اعظم عمران خان معیشت اور معاشرے کو درست کرنے کے لئے ڈاکٹر شاہد مسعود ، مبشر لقمان اور ڈاکٹر عامر لیاقت سے مشورے لیں اور دنوں میں حالات کو ٹھیک کردیں اور اگر چٹکیوں میں ٹھیک کرنا مقصود ہوں تو اپنے سیاسی کزن علامہ طاہرالقادری سے بھی رجوع کرسکتے ہیں!