پہلے بھی کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ ہم کالم نگاروں کا قبیلہ ہمیشہ سے داخلی/ مقامی سیاسی موضوعات پر قلم فرسائی کرنے کی عادت میں مبتلا رہا ہے۔ ایسا کرنا اچھی بات ہے لیکن اس بات میں برائی کا پہلو یہ ہے کہ آپ جس بھی سیاسی موضوع پر لکھیں گے وہ متنازعہ ضرور ہو گا۔ پولیٹیکل سائنس کے تناظر میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کسی بھی ملک اور معاشرے کی گاڑی کے دو پہیئے ہوتے ہیں اور دونوں مل کر گاڑی کو چلاتے ہیں۔ جمہوری معاشروں میں آغازِ طرزِ جمہوریت سے یہی رسم جاری ہے۔ یہ دوپہیئے الیکشن کے ایام میں ایک دوسرے کے مخالف چلتے ہیں اور نتیجتاً گاڑی کھڑی ہو جاتی ہے۔ لیکن جب الیکشن ہو جاتے ہیں اور راستے ٹریک کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور ایک گاڑی بان گدی پر بیٹھ جاتا ہے تو پھر ان دونوں پہیوں کو ایک دوسرے کی سپورٹ درکار ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو گاڑی کھڑی کی کھڑی رہ جاتی ہے۔ لیکن یہ سٹینڈ آف زیادہ طویل نہیں ہو سکتا ہے۔ دنیا کی ساری جمہوریاؤں میں یہی چلن رائج ہے۔ صرف پاکستان وہ واحد جمہوریہ ہے جس میں ایک یومِ الیکشن سے دوسرے یومِ الیکشن تک کے پانچ برسوں میں یہی انہونی جاری رہتی ہے۔
چنانچہ جب کوئی کالم نگار کسی داخلی / پاکستانی سیاسی موضوع پر لکھتا ہے تو اس کے استدلال کو دو متخالف راستوں میں سے ایک کو منتخب کرنا ہوتا ہے۔ یہ اس کی مجبوری ہے۔ لیکن اگر آپ دوسرے ترقی یافتہ معاشروں کو دیکھیں تو ان کے اخبارات کے کالم ایامِ الیکشن میں تو کسی ایک فریق کے حامی ہوں گے لیکن اس کے بعد جب راستہ متعین ہو جاتا ہے تو ملکی اور مقامی موضوعات کی تنگنائے سے نکل کر کھلے سمندروں میں چلے آنے کا رواج عام ہے۔
میں نے یہ تمہید اس لئے باندھی ہے کہ قارئین سے گزارش کروں کہ پاکستان کے سیاسی موضوعات پر کالم نگاری کچھ مشکل نہیں بلکہ بہت زیادہ آسان ہے لیکن یہ اندرون بینی کب تک؟ …… بیرونِ در بھی جھانکنا چاہیے۔ سو اسی بیرونِ در تاک جھانک کے حوالے سے آج کا کالم گوارا کیجئے۔
دوسری جنگ عظیم جو اگست 1945ء میں جاپان پر امریکہ کی طرف سے جوہری حملوں کے بعد ختم ہو گئی تھی، تاریخِ عالم کے لئے ایک واٹر شیڈ تھی یعنی ایک ایسی حدِ فاصل جس نے ایک نیا جہان تخلیق کر دیا تھا۔علامہ اقبال اس جنگ کے آغاز (یکم ستمبر 1939ء) سے ایک سال پانچ ماہ پہلے وفات پا چکے تھے۔ تاہم انہوں نے پہلی جنگ عظیم (1914-18ء) تو دیکھی تھی۔ یہ جنگ دوسری عالمی جنگ کی کتابِ حرب و ضرب کا دیباچہ بھی تھی جس کے بعد ایک عالمِ نو پیدا ہوا تھا جس پر اقبال نے کہا تھا:
جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالمِ پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ
یہ قمار خانہ نہ صرف آج بھی جوں کا توں ہے بلکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس کی ”نوسربازیوں“ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ 1918ء میں یہ جہانِ نو، اسلامی دنیا کے زوال پر ایک مہر تصدیق بھی تھی! سارا مشرق وسطیٰ تبدیل ہو گیا تھا اور خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے۔ پھر اس کے 21 برس بعد 1939ء میں جب دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا تو اس کا خاتمہ جوہری بم نے کیا اور ایک دوسرا جہانِ نو تخلیق کر دیا جس میں پرانی سپرپاورز (برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور جرمنی وغیرہ) قصہ ء پارینہ بن گئیں اور نئی سپرپاورز (امریکہ اور سویت یونین) منصّہء شہود پر جلوہ افروز ہوئیں۔
قارئین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس جنگ میں یورپی ممالک اور امریکہ کے فوجیوں اور سویلین کا اتنا جانی نقصان ہوا تھا کہ وہ اعداد و شمار پڑھ کر یقین نہیں آتا۔ جتنی بڑی اور طویل یہ جنگ تھی، یورپ اور دوسرے براعظموں کے سویلین اور فوجی اتلافات بھی اتنے ہی کثیر التعداد تھے …… ابھی گزشتہ ہفتے دنیا کی ان بڑی بڑی طاقتوں کے لیڈروں کا اجتماع فرانس میں ہوا جنہوں نے 6 جون 1944ء کو ہونے والے اتحادی حملے میں حصہ لیا تھا۔ اس حملے کو تاریخِ حرب و ضرب میں ”آپریشن اوورلارڈ“ کہا جاتا ہے جو مقبوضہ فرانس کو نازی تسلط سے آزاد کروانے کے لئے کیا گیا تھا (اس وقت فرانس پر ہی نہیں، سارے یورپ پر ہٹلر کا قبضہ تھا) اگرچہ 1943ء میں جرمن شکستوں کا آغاز ہو چکا تھا لیکن جب تک اتحادیوں کی طرف سے ایک منظم حملہ ء عظیم، جرمن افواج کے خلاف لانچ نہ کیا جاتا، یورپ کے پرانے نظام کو بحال کرنا ممکن نہ تھا۔
آج 6 جون 1944ء کو گزرے 75برس ہوچکے ہیں۔ اور اس پون صدی پہلے کے حملے کو جس انداز میں فاتح اتحادیوں نے منایا ہے وہ ان کے عزمِ صمیم کی دلیل ہے۔ میں قارئین سے گزارش کرتا رہتا ہوں کہ اس جنگ کا دقّتِ نظر سے مطالعہ کریں کہ اس میں ہمارے لئے لاتعداد اسباق ہیں۔ یہ اسباق امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے تو از بر کر رکھے ہیں لیکن مسلم امہ نے ان کو فراموش کیا ہوا ہے۔
جون 1944ء کا آغاز اوراقِ تاریخ سے نکال کر ذرا ذہن کی سکرین پر پھیلایئے۔ نازی جرمنی نے فرانس پر مئی 1940ء ہی میں قبضہ کر لیا تھا اور ماسوائے روس (جو اتحادیوں میں شامل تھا) سارا یورپ ہٹلر کی افواج کے پاؤں تلے پڑا سسک رہا تھا۔ یورپ کے نقشے پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ فرانس پر دوبارہ قبضہ کرنا کتنا مشکل بلکہ بظاہر ناممکن تھا۔ فرانس کا مغربی ساحل بحراوقیانوس کے مشرقی کنارے پر واقع ہے، اور نہایت طویل اور وسیع ہے۔ جرمن افواج نے اس ساحل کے دفاع کا سخت بندوبست کر رکھا تھا۔ صرف انگلستان ہی یورپ کا ایک واحد ملک تھا جو جرمنی کے قبضے میں نہیں تھا اور وہیں سے فرانس پر حملہ کیا جا سکتا تھا۔ اس حملے کو عظیم ترین بحری فضائی حملہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ حملہ ایک ایسا یادگار واقعہ تھا جس نے آنے والی صدیوں میں اس سوال کا فیصلہ کر دینا تھا کہ مستقبل نازی جرمنی کا ہے یا اتحادی ممالک کا۔
القصہ واقعہ یوں ہے کہ آج سے پون صدی پہلے 6 جون 1944ء کو ایک لاکھ پچاس ہزار اتحادی سپاہ سمندری راستے سے ساحلِ فرانس کی طرف بڑھی۔ اس کا مشن یورپ کی آزادی تھا۔ یہ حملہ جسے عظیم بحری اور فضائی یلغار کہیں تو بے جا نہ ہو گا، دنیا کی بحری تاریخ کی سب سے بڑی یلغار تھی۔ اس یلغار میں امریکی، برطانوی، کینیڈین اور آسٹریلوی ٹروپس شامل تھے۔ علاوہ ازیں ان میں باقی اتحادی دنیا کی 12ممالک کی افواج بھی شریک تھیں …… اس ایک دن نے اس 6سالہ جنگ کے یادگار ترین دن کا روپ دھارا۔ بعض مورخوں نے اس دن کو 20ویں صدی کا اہم ترین دن بھی شمار کیا ہے۔ اتحادی بحری بیڑا عظیم الشان تھا! اس کو سپورٹ کرنے کے لئے اس شب 13000 فضائی فوج کے ٹروپس بھی پیرا شوٹ کے ذریعے نارمنڈی (فرانس) ساحل پر اتارے گئے۔ جن پانچ بحری ساحلی علاقوں بیچ ہیڈز پر یہ پیراٹروپر ڈراپ کئے گئے ان کے نام (1) یوٹا …… (2) گولڈ …… (3) جونو …… (4) تلوار …… اور (5) اوماہا تھے۔ اس دن موسم سخت طوفانی اور خراب تھا۔ جرمنوں کا خیال تھا کہ اگر اتحادیوں نے حملہ کرنا بھی ہے تو اس خراب موسم میں تو نہیں کریں گے لیکن جنرل آئزن ہاور جو اتحادی افواج کا سپریم کمانڈر تھا اس کا پلان تھا کہ جرمن ساحلی دفاع کو ناگہانیت کا شکار بنانے کے لئے یہی موسم ”انتہائی سازگار“ ہے……
اس امر کا ذکر کرنا بھی نامناسب نہیں ہو گا کہ روس اگرچہ اتحادیوں کا حصہ تھا لیکن اس کو کہا گیا تھا کہ وہ اس بحری یلغار میں شریک نہ ہو بلکہ جرمنی کی مشرقی سرحد سے زمینی حملہ کرکے برلن پر ایڈوانس کرے اور اس طرح مشرق سے روسی اور مغرب سے باقی ماندہ اتحادی افواج جرمنی کے دارالحکومت کو سینڈوچ کردیں …… اور پھر ایسا ہی ہوا …… تاہم برلن تک آتے آتے اتحادیوں کو ایک برس لگ گیا (جون 1944ء تا اپریل 1945ء) اور جب برلن فال ہوا تو اتحادیوں کے جانی نقصانات ہوشربا تھے!
پاکستان اور مسلم امہ کے باقی 56 ممالک اس حقیقت سے بے خبر رہتے ہیں کہ آج غیر مسلم ترقی یافتہ ممالک کی مرفع الحالی اور ہمہ جہت ترقی اور مسلمانوں کے نکبت و افلاس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے حدیثِ جنگ کو فراموش کیا اور افرنگیوں نے اسے گلے لگایا۔ امریکہ، برطانیہ، روس، اٹلی، فرانس بلکہ بعد میں جرمنی اور جاپان نے بھی جو اس جنگ کے شکست خوردہ فریق تھے اور چین نے بھی جو اس جنگ کا براہ راست نہیں بلواسطہ شریک تھا، ترقی کی منازل اس لئے طے کیں کہ دوسری عالمی جنگ میں اپنے لاکھوں کروڑوں فوجی اور سویلین باشندوں کی قربانی دی۔ ہم اس عالمی جنگ کی ”زدوخورد“ سے الا ماشا اللہ بچے رہے اور اسی لئے آج ایک اور طرح کی ”زدوخورد“ کا شکار ہیں۔
پاکستان اپنی آزادی کے 72 برس بعد بھی دعویٰ کرتا ہے کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں! …… لیکن کون سی حالتِ جنگ؟ …… یہ حالتِ جنگ نہیں، حالتِ خانہ جنگی ہے …… اگلے روز شمالی وزیرستان میں آئی ای ڈی کی وجہ سے جو فوجی آفیسرز / جوان (کرنل راشد کریم بیگ، میجر معیز مقصود، کیپٹن عارف اللہ اور حوالدار ظہیر احمد) شہید ہوئے ان کا حساب کون لے گا؟ …… اس سے اگلے روز اسی علاقے میں دو اور فوجی جوان بھی شہید ہوئے……
قوم کی بے حسی ملاحظہ کیجئے کہ تین چار روز پہلے ملک کے ایک نامور ادیب ڈاکٹر انور سجاد (عمر 84 برس) کا انتقال ہوا تو ان کی وفات پر کالم لکھے گئے اور اخبارات نے اداریئے سپرد قلم کئے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی کئی روز تک جاری رہے گا …… میں خود مرحوم ڈاکٹر انور سجاد کا فین رہا ہوں اور ان کی فنی خدمات کا مدح خواں ہوں۔ خدا ان کو غریق رحمت کرے۔ میں صرف قارئین کی توجہ اس جانب مبذول کروا رہا ہوں کہ ایک طرف کہن سال ڈاکٹر انور سجاد طبعی موت مرتے ہیں اور دوسری طرف فوج کے جواں سال آفیسرز / جوان قوم پر قربان ہو جاتے ہیں …… ان کا مرثیہ کون لکھے گا، ان پر کتنے کالم آپ کی نظروں سے گزریں گے اور کتنے اداریئے لکھے جائیں گے؟ …… کبھی قوم نے سوچا کہ ان شہیدوں کی بھی کوئی خدمات ہیں؟ یہ مت سمجھئے کہ میں مرحوم انور سجاد کو ان فوجی شہیدوں کے مقابل رکھ رہا ہوں …… میں صرف ایک ایسے نکتے کی طرف آپ کو متوجہ کروا رہا ہوں کہ قوم اور ملک کے رکھوالے جب جواں سالی میں شہید ہوتے ہیں تو ان کو کتنی جلدی بھلا دیا جاتا ہے اور ڈاکٹر انور سجاد جیسے قلمکار اور فنکار جب طبعی عمر پا کر واصل بحق ہوتے ہیں تو ان کو کس طرح یاد رکھا جاتا ہے! خدارا اس مثال کو کوئی دوسرے معانی نہ پہنایئے
!!…… 1989ء میں بیجنگ کے ٹینامن سکوائر میں چین نے حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر ٹینک چڑھا دیئے تھے۔ حتمی تعداد کا تو کوئی ریکارڈ موجود نہیں لیکن مغربی ابلاغی ذرائع کہتے ہیں کہ اس ایکشن میں ہزاروں چینی مارے گئے تھے …… لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ …… کیا حکومت کے خلاف کوئی دوسرا ٹینا من سکوائر بھی ہوا؟ مغربی میڈیا کہے گا کہ چین میں جمہوریت نہیں۔ چلو مان لیتے ہیں کہ جمہوریت نہیں۔ لیکن کیا ایسی جمہوریت کو چاٹنا ہے جس سے ملک اور قوم مسلسل کمزور ہوتی رہے۔ 6 جون 1944ء کو آپریشن اوور لارڈ کی ایک دن کی اتلافات 9950 تھیں (یہ صرف 6جون کے اعداد و شمار ہیں) …… یہ کڑوا گھونٹ مغربی جمہوریاؤں کو اس لئے پینا پڑا کہ ان کی آنے والی نسلیں، جنگ سے محفوظ ہو جائیں …… ہم نے دیکھا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا میں کوئی بھی چھوٹی بڑی جنگ نہیں ہوئی۔ مغربی ممالک اپنی جنگ کو اپنے ملکوں سے باہرجا کر لڑ رہے ہیں۔
افغانستان …… عراق …… شام …… لیبیا …… یمن …… کوریا …… ویت نام وغیرہ میں …… ان جنگوں میں مغربی افواج کے ہزاروں فوجی مارے جا چکے لیکن ان کی مین لینڈز محفوظ رہی ہیں …… اسے کہتے ہیں جمہوریت…… اسلام کی اولیں جنگوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں۔ مدینہ، دمشق اور بغداد کو محفوظ و مامون رکھنے کے لئے مسلمانوں نے اپنے وطن سے باہر جا کر جنگیں لڑیں …… اِدھر ہم پاکستانی ہیں کہ اپنے اندر کی جنگوں کے عادی ہیں۔ اور دعوے کرتے ہیں کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں!…… شمالی وزیرستان کی صورتِ حال پر میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔ لیکن قارئین کو یہ ضرور بتاؤں گا کہ وہاں کے دو اراکینِ قومی اسمبلی کی کارستانیوں سے قوم اور افواجِ قوم پر جو گزر رہی ہے اس کی وجہ سے افواج پاکستان کے آفیسرز اور جوان شہید ہو رہے ہیں اور ہم مہر بہ لب ہیں۔کیا ملک کی کسی بھی سیاسی پارٹی نے اب تک ان فوجی شہادتوں پر کوئی بے لاگ تبصرہ کیا ہے؟ …… کیا محسن داوڑ اور علی وزیر کی گرفتاریوں پر کوئی ایسا ردعمل ظاہر کیا گیا ہے جو پاکستان کی موجودہ صورتِ حال کا تقاضا ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی قوم کے ساتھ ماضی میں جو کھلواڑ ہوتا رہا اور حال میں جو ہو رہا ہے، یہ قوم اسی لائق ہے …… 6 جون 1944ء کے اسباق کی فراموشی ہمیں یہی سبق دے رہی ہے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بالکل فطرت کے اٹل قانون کے عین مطابق ہے!