اس بچے کو موت سے ڈراتے ہو جس کے نانا کو، سولی اور ماں کو شہید کیا گیا… اس بچے کو موت سے ڈراتے ہو جس کی نانی کو قذافی سٹیڈیم میں لاٹھیاں ماری گئیں اور ماموں کو زہر دے دیا گیا‘‘ جذبات اور سیاسی میچورٹی پر مبنی بلاول بھٹو کی تقریر قابل تحسین بھی ہے اور متاثر کن بھی۔
سیاست کی تاریخ کا ہر باب‘ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے جیلیں کاٹنے، جلا وطنی اور اپنی جان قربان کرنے سے بھرا ہے۔ اس ماضی سے جڑا مسٹر ٹین پرسنٹ کا کردار بھی بہت اہم ہے‘ جو ثابت تو نہیں ہو سکا‘ ان سیاسی ابواب کو گدلا ضرور کرتا ہے۔ بلاول بھٹو کو آج جس جماعت کی قیادت سونپی گئی ہے اس میں نہ تو وہ قد کاٹھ ہے جو طاقت وروں کے خلاف ڈٹ جائے‘ نہ وہ جیالا ہے‘ جو اپنے خون سے سیاست کو سینچنے کا فن جانتا ہو۔ نہ وہ ملک گیریت ہے جو نواز شریف جیسے تجربہ کار وزیر اعظم کی حکومت کو زیر کرنے کی طاقت رکھتی تھی۔ ہاں البتہ آصف علی زرداری کی گرفتاری نے پیپلز پارٹی کے لیے سیاسی ماحول ضرور تخلیق کر دیا ہے۔ اس ماحول کو اپنے حق میں ساز گار بنانے کے لیے بلاول بھٹو کو دو آزمائشوں سے گزرنا ہے۔ نمبر ایک‘ زرداری صاحب کی مبینہ کرپشن کا جاندار دفاع‘ اور نمبر دو‘ جماعت کو لاڑکانہ کی چند گلیوں سے نکال کر ملکی سطح پر متحرک کرنا۔ یہ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ بظاہر کسی ایک فریق کے حق میں نظر آتا سیاسی ماحول تمام فریقوں کے لیے باعثِ آزمائش ہے۔ نمبر ایک‘ حکومت جس کے لیے بجٹ کی منظوری آزمائش ہوگی۔
نمبر دو‘ مسلم لیگ ن کے لیے، مفاہمت اور میاں صاحب کا بیانیہ بیک وقت رد کیے جانے کے بعد جسے بیچ کا راستہ نکالنا ہے اور پیپلز پارٹی کے ساتھ چل کے بھی یہ تاثر قائم نہیں ہونے دینا ہے کہ اس زرداری‘ جس کا پیٹ پھاڑ کر ملکی دولت واپس لانی تھی‘ کے دفاع میں تحریک چلائی جا رہی ہے۔ نمبر تین‘ پیپلز پارٹی کے لیے اپنے جیالوں میں جان ڈالنا اس کی سب سے بڑی آزمائش ہو گی۔ نمبر چار‘ چودہ جون کو شروع ہونے والا وکلا احتجاج۔ اور مہنگائی کے خلاف اپوزیشن کا عوام سے رابطہ جمہوریت کے لیے آزمائش ہو گی۔ خبر گردش میں ہے کہ حکومت کے اپنے اتحادی‘ بجٹ کی منظوری کے لیے اس کے سامنے شرائط رکھ چکے ہیں۔ حکومت کو اس وقت صرف سات ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔ حکومت کا ایک اتحادی‘ جس کی ایوانِ زیریں میں ممبران کی تعداد چار ہے‘ اختر مینگل ہے۔ وہ آج کل اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کندھا ملا کے چلتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کے تحفظات بڑھ گئے ہیں اور گلے شکوے شدت اختیار کر چکے ہیں۔ حکومت نے اتحادیوں سے جڑے رہنے کے لیے جہانگیر ترین، نعیم الحق اور پرویز خٹک پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تو تشکیل دے دی ہے… مگر اتحادیوں کے اتحاد کی گارنٹی ابھی تک مشروط ہے۔ باقی رہا معاملہ بیل کو لال جھنڈی دکھا کر آگے آگے بھاگنے کا تو حکومت یہ کھیل مکمل دل جمعی کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ نو منتخب حکومت کا پہلا مکمل بجٹ‘ تاریخ کا وہ اچھوتا بجٹ ہے جس کی ایوان میں منظوری سے پہلے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
آصف علی زرداری … جن کا جیل دوسرا گھر ہے… پھر قیدِ زندان ہیں۔ اب یہ بھی ہمارے نظام کا المیہ ہے کہ ساڑھے گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے رہنے والے ملزم آصف علی زرداری کا جرم آج تک ثابت نہیں ہو سکا… کبھی استغاثہ کمزور رہا … کبھی شواہد کو دیمک کھا گئی … کبھی ثبوت آگ کی نذر ہو گئے۔ زرداری صاحب سیاست کی فائلوں میں ٹین پرسنٹ قرار دئیے گئے‘ اور سڑکوں پہ گھسیٹنے، ان سے پائی پائی وصول کرنے جیسے بھڑکیلے ڈائیلاگ‘ کوٹیکنا‘ سرے محل کیسز اور سوئس بینکوں میں رکھے 60 بلین ڈالر کے تذکرے زرداری صاحب سے منسوب تو رہے مگر ہمارا نظام ان سے ایک سنٹ بھی وصول نہیں کر سکا۔ گویا جس سیاست دان نے احتساب کے نام پر جیل کاٹی‘ سیاسی نظام کو اس کے سیاسی گروہ بننے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ میاں صاحب کے بعد حمزہ شہباز بھی دھر لیے گئے ہیں۔ ان پر 36 کروڑ روپے سے مقامی آبادیوں کے نام پر رمضان شوگر ملز کے لئے نالہ تعمیر کا الزام ہے۔ نیب کا مؤقف ہے کہ حمزہ شہباز کو 7 نوٹسز بھیجے گئے‘ لیکن وہ پیش نہیں ہوئے‘ حمزہ نے منی لانڈرنگ بھی کی اور مشکوک اکاؤنٹ کا انکشاف بھی ہوا، گو کہ یہ الزامات بھی ابھی ثابت ہونا باقی ہیں۔ بجٹ اور گرفتاریوں سے تاثر یہ مل رہا ہے کہ حکومت معاشی اہداف تو حاصل نہیں کر سکی؛ البتہ سیاسی اہداف کے حصول میں کافی آگے ہے۔ زرداری صاحب کی گرفتاری کے بعد سندھ میں جیالوں کا جوش ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔
پنجاب میں میاں صاحب کی ضمانت ضبط ہونے کے بعد ن لیگ بذریعہ ٹویٹس تیور چڑھا چکی ہے۔ بلوچستان میں اختر مینگل آستین چڑھا چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں مولانا صاحب آخری وار کی تیاری کر چکے ہیں۔ حکومت نے ادھر لال جھنڈی خود دکھائی ہے اور ایک لال جھنڈی وہ ہے جو کہ معاشی بیل کو دکھائی گئی ہے۔ اب ایسے میں اپوزیشن جماعتیں اگر اپنا اپنا راگ لے کر نکلتی بھی ہیں تو عوام ‘ووٹ کو عزت دو‘ اٹھارہویں ترمیم‘ آئینی بالا دستی اور دو وقت کی روٹی کے چکر میں چکرا سکتی ہے۔ سالانہ بجٹ کی منظوری کے بعد عام فہم اندازہ ہے کہ جس مزدور کو دو وقت کی روٹی میسر تھی اب وہ ایک وقت پر گزارہ کرے … چینی پر سیلز ٹیکس 8 سے بڑھا کر 17 فیصدکر دیا گیا‘ جس سے چینی کی قیمت ساڑھے 3 روپے فی کلو بڑھے گی، خوردنی تیل اور گھی پر بھی 14 فیصد ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔ گھر کے بجٹ سے ملک کے دفاعی بجٹ تک‘ اس بجٹ سے شدید متاثر ہوا ہے… اس سب کے باوجود منتخب وزیر اعظم ایوان میں اپوزیشن کو فاتحانہ ردِ عمل دیتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ وہ اپنے بازو ہوا میں لہراتے ہوئے یوں گویا ہوئے کہ بجٹ کی مخالفت کرنے والو‘ لگے رہو‘ حکومت نے بجٹ پیش کر دیا ہے‘ اور ملک کی تین بڑی جماعتوں کے قائدین کو قید بھی کر لیا گیا ہے۔ عوام اور اپوزیشن ششدر ہیں کہ یہ کیسی باڈی لینگوئج ہے۔
پیپلز پارٹی کے لیے یہ کھیل قدرے آسان ہوگا کیونکہ یہاں پیپلز پارٹی کو ن لیگ پر اخلاقی برتری اس لیے حاصل ہے کہ پیپلز پارٹی کا ماضی عدالتوں پر حملے کرنے اور عدالتوں کی بے توقیری کرنے سے پاک ہے۔ اور دوسری اخلاقی برتری پیپلز پارٹی کی وہ نو عمر قیادت ہے جو فی الحال کسی بھی قسم کی بد عنوانی کے الزام سے پاک ہے‘ اور زرداری اور پھپو کے سائے سے پہلی بار باہر آ چکی ہے۔ ‘آ بیل مجھے مار‘ کے اس کھیل میں حکومت نے ایک اور لال جھنڈی عدالتی تقدس کے بیل کو دکھا دی ہے۔ چودہ جون کو یہ بیل ممکن ہے حکومت کو اپنے سینگوں پر اٹھانے میں سبقت لے جائے کیونکہ اس خطرناک مقابلے میں مشرف شکست اور پیپلز پارٹی ہزیمت اٹھا چکی ہے۔ 2007 میں وکلا کی آزادی کے لیے چلنے والی تحریک نے ساتھ چلنے والوں کو ہیرو اور مخالفت کرنے والی حکومت کو زیرو کر دیا تھا۔ یہ تاریخ اتنی پرانی نہیں کہ حکومت کو ازبر یاد نہ ہو… مگر بلا امتیاز احتساب کا تمغہ اپنے سینے پر سجانے کے لیے حکومت نے یہ قدم اٹھایا ہے‘ جو بظاہر بلا جواز ہے۔ کرنے والے کام وہ قانونی اصلاحات تھیں‘ جو عدالتی نظام کی درستی کے لیے ناگزیر تھیں۔ وکلا، اپوزیشن اتحادیوں اور ‘عوام کو پڑنے والے روٹی کے لالے‘ وہ بیل ہیں جو حکومت کو اپنے سینگوں پر اٹھا کر ناکوں چنے چبوا سکتے ہے۔ اور جب بیل بد مست ہو جائے تو نہ دھونس سے قابو میں آتا ہے نہ پیسوں کا لالچ دے کر اس کے حوصلے پست کیے جا سکتے ہیں۔