اسلام آباد (نیوز ڈیسک) نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے اپنے بیٹے کے انتقال پر کُھل کر اپنی دکھ بھری داستان سُنا دی۔ قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ہم پریس کانفرنس کے لیے کھڑے تھے کہ ایک صحافی تاخیر سے آیا ، اُس نے ڈائز پر مائیک رکھا اور پیچھے ہٹ کر اپنے ساتھیوں کے کان میں کچھ کہا، تب ہی مجھے اطلاع دی گئی کہ آپ کے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔میں نے پوچھا کہ کیا ہوا ، کس کے بیٹے کا ؟ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کے بیٹے کا ۔ میں شکریہ کر کے ہٹا اور بڑے بیٹے سے رابطہ کیا کیونکہ وہ لاہور میں تھا ، چھوٹے بیٹے کی تو توقع ہی نہیں تھی کہ اُس کا ایکسیڈنٹ ہو جائے گا۔ میرے ذہن میں فطری طور پر بڑے بیٹے کا ہی خیال آیا۔میں نے اپنے بیٹے کو فون کیا تو اُس نے آگے سے ”ہیلو” کہا اُس کی آواز سنتے ہی میری پریشانی کافی حد تک ختم ہو گئی ، میں نے سوچا کہ جو خود فون پر بات کر رہا ہے وہ ٹھیک ہی ہو گا۔اُسکے بعد میں نے حال دریافت کیا تو اُس نے رونا شروع کردیا اور چیختے ہوئے مجھے کہا کہ بابا میرا نہیں اُسامہ کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور وہ اب ہم میں نہیں رہا۔ اُس وقت میرے ساتھ نئیر بخاری ، مصطفٰی صاحب اور چودھری منظور صاحب تھے جو مجھے لے کر گاڑی میں بیٹھے اور ہم واپس چلے گئے۔ کافی دیر میری عجیب سے کیفیت رہی۔ نہ رونا آ رہا تھا نہ بات ہو رہی تھی۔رمضان تھا اور افطار کا وقت قریب تھا، راستے میں رُک کر افطار کا کہا، میں نے چودھری منظور صاحب سے کہا کہ فون کر کے پوچھیں کہ کیا اُسامہ اکیلا ہی تھا ، کیا اُس کے ساتھ کوئی اور تو نہیں تھا جس کا کوئی نقصان ہو گیا ہو۔ مجھے پتہ چلا کہ اُس کا ایک دوست حمزہ بٹ بھی ساتھ تھا اُس کا بھی انتقال ہو گیا ، یہ بات سُن کر میرا دکھ اور بڑھ گیا ، میں نے سب سے کہا کہ حادثہ ہو چکا ہے آپ راستے میں رُک کر سب لوگ افطار کیجئیے۔انہوں نے مجھ سے اُترنے کا کہا میں نے اُس نے مجھے تنہائی میں چھوڑنے کی درخواست کی۔ اُس تنہائی میں مجھے رونا بھی آیا، پھر میں نے اپنے آپ کو قابو کیا۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی نقطہ نظر سے ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ جو حادثہ ہوا۔ بیٹے بیٹیاں انعام ہوتے ہیں ، کچھ انعام تھوڑی دیر کے لیے ہوتے ہیں اور کچھ زیادہ دیر کے لیے، اُسامہ میرے لیے تھوڑی دیر کا مہمان تھا۔اُس کی تکلیف اور دکھ اپنی جگہ رہے گا۔ میں نے اپنی فیملی کو بھی سمجھایا کہ اللہ نے جتنا عرصہ آپ کو یہ انعام دیا آپ نے انجوائے کیا لیکن ہاں اُس کے جانے کا دُکھ ضرور ہے ، اُس سے پیار تھا ، محبت تھی، ماں کو مجھ سے زیادہ ہے دادی کو اُس سے زیادہ ہے۔ میں بہت سخت جان آدمی ہوں، سخت فیصلے کر لیتا ہوں ، میں نے اُس دن دوستوں کو کہا کہ زندگی کے کچھ لمحے زندگی کے دھارے بدل دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حمزہ بٹ میرے بیٹے سے زیادہ خوبصورت اور جوان قد تھا ۔ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے بھی خاص رحمتیں فرمائے۔ اس حادثے نے میری زندگی بدل دی لیکن ابھی بھی میری بطور باپ ، شوہر کچھ ذمہ داریاں ہیں جو مجھے نبھانی ہیں۔