لاہور (ویب ڈیسک) سیف الرحمن اب تاریخ کے اوراق میں گم ہو چکے ہیں لیکن ایک وقت تھا جب پورے ملک میں ان کا طوطی بولتا تھا‘ میاں نواز شریف کے پرانے دوست اور قطر کے شاہی خاندان کے مشیر تھے‘ یہ نواز شریف کے پہلے دور میں پاکستان آئے‘ ریڈکو کے نام سے کمپنی بنائی‘ نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ حکومت سے ٹھیکے لیے اور دنوں مہینوں میں ارب پتی ہو گئے اور یہ میاں نواز شریف کی دوسری حکومت میں سینیٹر بن گئے۔ آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی کے دوسرے دور میں رحمن ملک کے ذریعے میاں نواز شریف کے والد میاں شریف کو ان کے دفتر سے کرسی سمیت اٹھوایا تھا‘ میاں نواز شریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو یہ بھٹو خاندان سے اس ہزیمت کا بدلا لینا چاہتے تھے لیکن ن لیگ کا کوئی لیڈر انتقام کی اس سیاست میں نواز شریف کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں تھا‘یہ ایک نازک مسئلہ تھا اور اس نازک مسئلے میں سیف الرحمن نے اپنی خدمات پیش کر دیں یوں میاں نواز شریف نے سیف الرحمن کو احتساب بیورو کا چیئرمین بنا دیا اور یہ آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کو گرفتار کرنے پر تیار ہو گئے‘ پولیس میں سے یہ سروس رانا مقبول نے پیش کر دی۔ قصہ مختصر سیف الرحمن نے ’’کمال‘‘ کر دیا‘ احتساب کے نام پر آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کے خلاف ایس جی ایس اور کوٹیکنا ‘ اے آر وائی گولڈ کے مالکان کے ساتھ مل کر سونے کی اسمگلنگ‘ ارسس ٹریکٹرز کی خریداری میں ڈیڑھ لاکھ روپے فی ٹریکٹر کمیشن اور آمدنی سے زائد اثاثوں کے ریفرنس بھی دائر کر دیے ‘ آپ نے سیف الرحمن کی جسٹس قیوم سے ٹیلی فونک گفتگو سنی ہو گی۔ اس میں سیف الرحمن نے جسٹس قیوم کو فون کر کے بے نظیر بھٹو کے خلاف جلد سے جلد فیصلے کا ’’حکم‘‘ جاری کیا تھا‘ کرپشن کے یہ سارے مقدمے چل رہے تھے‘ آصف علی زرداری جیل میں بھی تھے لیکن اس زمانے میں حکومت کے خوفناک دباؤ کے باوجود کوئی جج بھٹو خاندان کے خلاف فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ پوری عدلیہ جانتی تھی یہ مقدمے سیاسی ہیں اور بھٹو خاندان کبھی نہ کبھی ان مقدموں سے نکل آئے گا چناں چہ عدلیہ میاں نواز شریف کے لیے ملک کی سب سے بڑی پارٹی کو ناراض کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ حکومت کو ایک وقت پر محسوس ہونے لگا بھٹو خاندان تمام مقدمات سے بری ہو جائے گا لہٰذا سیف الرحمن نے اس وقت زرداری صاحب کو جیل میں رکھنے کے لیے خوف ناک چال چلی‘ حکومت کی ایما پر آصف علی زرداری کے خلاف منشیات اسمگلنگ کا پرچہ بھی درج کر دیا گیا‘ منشیات ناقابل ضمانت جرم بھی ہے اور اس کی حتمی سزا موت اور عمر قید بھی ہے‘ سیف الرحمن کا خیال تھا آصف علی زرداری اگر تمام مقدمات سے بری بھی ہو گئے یا ان کی ضمانت بھی ہو گئی تو بھی یہ منشیات کے کیس کی وجہ سے باہر نہیں آ سکیں گے لیکن آپ قدرت کا نظام ملاحظہ کیجیے۔ 12 اکتوبر 1999ء آیا اور فوج نے سیف الرحمن کو بھی گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا‘ اب صورت حال بہت دل چسپ تھی‘ آصف علی زرداری سیف الرحمن کی وجہ سے جیل میں تھے اور سیف الرحمن جنرل پرویز مشرف کی وجہ سے جیل میں بند تھے اور یہ دونوں باری باری ایک ہی جج کے سامنے پیش ہوتے تھے‘ ان پیشیوں کے دوران ایک انتہائی دل چسپ وقت آیا‘ آصف علی زرداری اینٹی کرپشن کورٹ کے احاطے میں درخت کے نیچے بیٹھے تھے‘ سیف الرحمن آئے اور آصف علی زرداری کے پاؤں پکڑ لیے‘ زرداری صاحب نے سیف الرحمن کو اٹھایا اور ساتھ بٹھا لیا‘ سیف الرحمن اپنے ماضی کے گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے۔ زرداری صاحب نے ان سے کہا ’’میں آپ کو دل سے معاف کرتا ہوں مگر میرے دل میں مرنے تک ایک تکلیف باقی رہے گی اور وہ ہے آپ کی ایک گری ہوئی حرکت‘ آپ نے مجھ پر کرپشن کے مقدمے بنائے‘ مجھے کوئی افسوس نہیں ہوا‘ آپ دس بیس مزید مقدمے بھی بنا دیتے تو مجھے کوئی ملال نہ ہوتا لیکن آپ نے میرے خلاف منشیات اسمگلنگ کا کیس بنا کر بڑی زیادتی کی‘ میں آپ کو یہ کبھی معاف نہیں کروں گا‘‘ اور زرداری صاحب نے آج تک سیف الرحمن کو یہ جرم معاف نہیں کیا‘ منشیات کا وہ جھوٹا مقدمہ گیارہ سال زیر سماعت رہا‘وہ مئی 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد اختتام پذیر ہوا ۔ آپ یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے اور آپ اس کے بعد رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کا تجزیہ کیجیے‘ رانا ثناء اللہ کو اینٹی نارکوٹکس فورس نے یکم جولائی کو موٹروے پر سکھیکی کے قریب گرفتار کر لیا‘ اے این ایف کے مطابق رانا صاحب کی گاڑی سے 21کلو گرام وزنی سوٹ کیس برآمد ہواجس میں15کلو گرام ہیروئن تھی ‘اگلے دن رانا ثناء اللہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گیا‘ یہ کیس کتنا جینوئن ہے یہ فیصلہ وقت کرے گا تاہم یہ بظاہر آصف علی زرداری کے خلاف سیف الرحمن کیس سے ملتا جلتا ہے‘ رانا ثناء اللہ کے بے شمار دشمن ہیں اور یہ دشمن ان پر بے شمار الزامات لگاتے ہیں۔ چوہدری شیر علی نے انھیں 20لوگوں کا قاتل کہا تھا اور رانا ثناء اللہ کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 14لوگوں کے قتل کی ایف آئی آر بھی درج ہوئی لیکن کیا یہ منشیات کے اسمگلر یا منشیات فروش بھی ہو سکتے ہیں یہ ان کا بڑے سے بڑا دشمن بھی نہیں مان رہا ‘ ہم اگر چند لمحوں کے لیے یہ فرض بھی کر لیں رانا ثناء اللہ کے خلاف الزامات سچ ہیں تو بھی دل یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا 30سال سیاست اور اقتدار میں رہنے والا شخص اس قدر احمق ہو سکتا ہے وہ 15 کلو منشیات اپنی گاڑی میں رکھ کر موٹروے پر سفر کرے گا اور وہ بھی ان حالات میں جب وہ جانتا ہو وہ حکومت کی موسٹ وانٹڈ فہرست میں شامل ہے‘ رانا ثناء اللہ پچھلے دو ماہ سے مختلف صحافیوں‘ اینکر پرسنز اور اپنے ساتھیوں کو بتا رہے تھے میرے خلاف کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ یہ مجھے ہر صورت میں گرفتار کریں گے۔ یہ آخری بار ہمارے شو میں آئے تھے‘ پروگرام کے بعد یہ چلتے چلتے کہنے لگے ’’میں شاید آپ کے پروگرام میں آخری بار آیا ہوں‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’خیریت ہے‘‘ یہ چلتے چلتے بولے ’’حکومت اور حکومت کے اداروں کو میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل رہا‘ مجھے خطرہ ہے اگر میرے خلاف کوئی ثبوت نہ ملا تو یہ مجھے مروا دیں گے‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر کہا ’’جان دیو رانا صاحب حالات ابھی اتنے خطرناک بھی نہیں ہوئے‘‘ یہ بھی ہنس کر چلے گئے‘ مجھے اس دوران پتا چلتا رہا رانا ثناء اللہ نے اپنی سیکیورٹی اور احتیاط دونوں بڑھا دی‘ گارڈز بھی نئے رکھ لیے اور یہ اپنی آمد ورفت بھی خفیہ رکھتے تھے۔آپ اے این ایف کی ایف آئی آر بھی پڑھ لیجیے‘ چھاپا مارنے والے افسر نے ایف آئی آر میں لکھا ‘ہم نے رانا ثناء اللہ سے منشیات کے بارے میں پوچھا توانھوں نے اپنی سیٹ کے پیچھے پڑے سوٹ کیس میںشاپرکے اندر ہیروئن کی نشان دہی خود کی‘سوال یہ ہے کیا کوئی انسان اپنی گاڑی میں موجود منشیات کی نشان دہی خود کر سکتا ہے اور وہ کون سا بریف کیس ہے جس میں 15 کلو گرام منشیات آ جاتی ہے‘ عقل یہ نہیں مانتی‘پاکستان مسلم لیگ ن کے بے شمار لیڈر راناثناء اللہ کو خوش نصیب قرار دے رہے ہیں۔ان کا خیال ہو گا یہ گرفتار ہو کر بچ گئے ہیں‘ یہ پکڑے نہ جاتے تو یہ مارے جاتے لیکن میں سمجھتا ہوں یہ دراصل انتقال فرما چکے ہیں‘ ہمارے ملک میں کسی شخص پر منشیات اسمگلنگ کا الزام لگنا اور اس کا گرفتار ہونا کیا یہ موت کے برابر نہیں؟ یہ الزام 9 سی ہے اور اس میں ملزم کو سزائے موت بھی ہو سکتی ہے اور عمر قید بھی لیکن یہ بعد کی بات ہے‘ ملزم کو خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے جن جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے یہ ملزم جانتا ہے یا اس کا خدا‘ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں اگر چوہدری شجاعت کی فائل کھل جاتی ہے تو یہ فائل 19 سال بند نہیں ہوتی‘ بابر اعوان نے 1996ء کے الیکشنز میں دھاندلی کی پٹیشن دائر کی تھی‘ یہ پٹیشن 21 سال بعد2017ء میں اختتام پذیر ہوئی‘ اس دوران چار حکومتیں گزر چکی تھیں جب کہ یہ نائن سی کا مقدمہ ہے‘ یہ رانا صاحب کی دو نسلیں کھا جائے گا چناں چہ میں سمجھتا ہوں رانا صاحب زندہ ہوتے ہوئے بھی انتقال فرما چکے ہیں۔ میں معاشرے اور ملک کے بارے میں بہت پر امید تھا‘ میرے دوست مجھے غیر ضروری حد تک پرامید سمجھتے ہیں‘ میں دل سے سمجھتا ہوں قدرت جب تک سورج اور چاند کی آمد و رفت نہیں روکتی‘ جب تک بارشیں‘ ہوائیں‘ پھول اور پھل مایوس نہیں ہوتے یا دنیا میں جب تک بچے پیدا ہونا بند نہیں ہوتے انسان کو اس وقت تک مایوس نہیں ہونا چاہیے‘ اللہ تعالیٰ اگر ہماری آخری سانس تک ہمارے لیے توبہ کے دروازے بند نہیں کرتا تو پھر مایوسی کفر ہے لیکن یہ حالات دیکھ کر میں بھی پہلی بار مایوس ہو رہا ہوں‘ مجھے بھی محسوس ہو رہا ہے ہم دلدل کے اوپر چل رہے ہیں اور کسی دن یہ دلدل پھٹے گی اور ہم سب اس میں دھنس جائیں گے۔یہ سلسلہ اب رک جانا چاہیے‘ہماری چار نسلیں اس بدبودار نظام اور ان تعفن زدہ تکنیکس کی نذر ہو چکی ہیں‘ ہم نے ملک توڑ کر بھی سبق نہیں سیکھا‘ ہم آج بھی چٹان کے آخری سرے پر کھڑے ہو کر ایک ٹانگ پر اچھلنے کی پریکٹس کر رہے ہیں۔ یہ کب تک چلے گا؟ میرے والد بھرپور زندگی گزار کر 84 سال کی عمر میں اس سال مارچ میں انتقال کر گئے‘ وہ آخری پانچ برسوں میں بار بار کہتے تھے ’’میں نے پوری زندگی اس ملک میں امن نہیں دیکھا‘ ہم نے بچپن میں انگریز کے خلاف جدوجہد کی اور ہم 70 برسوں سے انگریزی نظام کے خلاف جنگ کر رہے ہیں‘ میں جنگوں میں پیدا ہوا اور میں جنگ میں مر رہا ہوں‘ پتا نہیں اس ملک پر کس آسیب کا سایہ ہے‘ ہمیں سکھ کا سانس کب نصیب ہو گا‘‘ میں خود بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسی کیفیت کا شکار ہوتا جا رہا ہوں اور بار بار سوچتا ہوں کیا ہماری اگلی نسل بھی اسی کنفیوژن‘ اسی خوف میں زندگی گزارے گی؟ کیا یہ بھی امن اور استحکام کو ترستی ترستی دنیا سے جائے گی؟ اور ہم ملک‘ قوم اور معاشرہ کب بنیں گے لہٰذا خدا کے لیے رانا ثناء اللہ اگر قاتل ہے تو اسے قتل میں گرفتار کریں‘ یہ اگر دہشت گرد ہے تو اسے دہشت گردی کے جرم میں پکڑیں اور یہ اگر کرپٹ ہے تو پھر اسے کرپشن کے الزامات میں حراست میں لیں‘ اسے یوں رسوا کر کے ریاست کی رسوائی میں اضافہ نہ کریں‘ اداروں کا مذاق نہ بنوائیں‘ یہ حماقتیں ریاست‘ اداروں اور حکومت تینوں کو ’’ڈس کریڈٹ‘‘ کر دیں گی‘ دنیا ہماری کسی بات اور کسی ادارے پر یقین نہیں کرے گی‘ ہمیں اب رک جانا چاہیے۔