ہم ٹی وی پہ چلنے والا وہ ڈرامہ سیریل جس نے ایسے نازک مگر اہم نُکتے پہ بحث چھیڑی جس کے بارے میں بات کرنے کو بھی نا ممکن سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو دیکھنے میں اور سُننے میں بہت سے لوگوں کو ناگوار گزری کیوں کہ ان لوگوں کی نظر میں یہ انتہائی واہیات ڈرامہ ہے، بہت گندی سٹوری ہے، فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے والا نہیں وغیرہ۔ مگر میں نے اس سیریل کو بہت دھیان سے دیکھا ہے۔ جو پیغام اس سیریل کے ذریعے ہم تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے اسے بہت گہرائی سے سمجھا ہے۔اور میری نظر میں یہ پیغام ہر گھر میں پہنچنا چاہیے! لوگوں کے لئے یہ محض کہانیاں ہوں گی مگر یہ ہمارے معاشرے کی ایسی حقیقتیں ہیں جنہیں سامنے لانے پر بہت سے گھروں کے چاچا، ماما، تائے، پُھپھا، دیور اور جیٹھ برہنہ ہو جائیں گے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے یہاں مرد ننگے ہو کہ بھی عزت دار رہتے ہیں مگر جس عورت کا دوپٹہ یہ کھینچ دیں اُسکی عزت تار تارہو جاتی ہے۔ ! میں بھی شاید آپ لوگوں کی طرح اس ڈرامے کو اتنا ’سیریس‘ نہ لیتی اگر یہ سب مُجھ پہ خود نہ گُزرا ہوتا۔میں بھی اس معاشرے کی ہزاروں ایسی عورتوں میں سے ایک عورت ہوں جس نے جب تک چُپ سادھی رہی تب تک با کردار رہی مگر جیسے ہی زبان کھولی بدکردار کہلائی گئی۔ اور مجھے اندازہ ہے کہ میری طرح اور کتنی ہی لڑکیاں اس سب سے خود کو ریلیٹ کر پائی ہوں گی۔ عورت کے لئے شادی سے قبل باپ/بھائی اور شادی کے بعد شوہر محافظ ہوتا ہے۔ اور اگر عورت کو ان کی موجودگی میں بھی تحفظ نہ ملے تو جواب دہ کون؟ وہ عورت جس کو ہراساں کِیا گیا یہاں جواب دہ بھی اُسی کو سمجھا جاتا ہے!باپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیٹی اور شوہر کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیوی کی ڈھال بن کے رہے۔ یہاں ایک اہم نُکتہ بیان کرنا چاہوں گی کہ ہمارے دین نے جوائنٹ فیملی سسٹم کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ یعنی ایسا گھریلو انتظام جس میں بھائی اور ان کی بیویاں بچے سب ساتھ رہیں۔ لوگ اس کو اتفاق سے رہنے کا طریقہ سمجھتے ہیں مگر در حقیقت اللہ نے اس میں پوشیدہ کئی پیچیدگیوں اور مصلحتوں کی وجہ سے ہمیں ایسے کرنے سے گریز کا کہا ہے۔اصل میں یہ ہمارا دین نہی بلکہ کلچر ہے۔ اور اس بات سے کسی کوانکار نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے کلچر میں ہندؤانہ رسم و روایات کی آمیزش کس حد تک ہے۔ ایک ساتھ رہنے میں کوئی برائی نہیں لیکن پھر معاملات کافی حد تک مشکل ہو جاتے ہیں۔ سب سے اہم معاملہ ہے پردے کا۔ اگر ایک ساتھ رہتے ہوئے کوئی پردے کا انتظام رکھے اور اس طرح گھر کو چلائے کہ روزمرہ کے کام بھی ہوتے رہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ لیکن عملی طور پہ ایسا کرنا مشکل ہے۔دیوروں اور جیٹھوں سے ہوتے ہوئے بات بچوں کے بڑے ہونے پہ ان کے کزنز تک پہنچتی ہے۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے عورتیں اور بچیاں کن کن طریقوں اور کیسی کیسی جگہوں پہ ہراساں کی جاتی ہیں کوئی سوچ بھی نہی سکتا۔ حتیٰ کہ آپ کی موجودگی میں کوئی آپ کی بیٹی یا بیوی کو چھو کہ اپنی ہوّس کو تسکین پہنچا جائے گا اور آپ لا علم رہیں گے۔ جانتے ہیں کہ عورت اس سب کے خلاف آواز اُٹھانے کے بجائے خود کو تکلیف میں مُبتلا کیوں رکھتی ہے؟کیونکہ ہمارے معاشرے کے المیوں میں سے ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مرد کے خلاف جب بھی کسی عورت نے آواز اُٹھائی وہ ذلیل و رُسوا ہو گئی! لوگ کہیں گے کہ عورت نے ہی کوئی اشارہ دیا ہوگا ورنہ اسے ہی کیوں تنگ کِیا گیا؟ مطلب عورت کا عورت ہونا، اُسکی نسوانیت، اس کا وجود ہی اُسکا گُناہ ہے؟ یہ جو بڑے بڑے گھروں کے امیر زادے اپنی میلی ماسیوں اور سانولی نوکرانیوں کی عزتیں پامال کرتے ہیں آپ کا کیا خیال ہے ان کا حسن ہوش ربا ہوتا ہے؟جی نہیں! حقیقت یہ ہے کہ ان کے لئے جو عورت جتنی کمزور ہے اور ’دسترس‘ میں ہے اُتنی ہی ہوش ربا ہے! سعدیہ کے کردارکو دیکھ کہ میرا دل کٹتا ہے۔ وحشت ہوتی ہے۔ اس میں کَہیں میں خود کو دیکھتی ہوں۔ اور میں جانتی ہوں کہ میری طرح بہت سی اور عورتوں نے اس کردار والی بے بسی اور تکلیف کو محسوس کِیا ہوگا۔ آپ کے گھروں میں، آپ کی نظروں سے اوجھل بہت سی سعدیہ ہیں۔ بہت سی صلّہ ہیں۔ جو چپ کر کے یہ سب سہہ رہی ہیں۔کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ اُنکی آواز نکلی تو اس سے انہی کے کردار کی دھجیاں اُڑائی جائیں گی! اور ایسا ہوتا ہے۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ آج کے دور میں بھی عورت کا کردار اتنا ہی نازک ہے۔ آج بھی وہ اتنی ہی غیر محفوظ ہیں! میں سوچتی ہوں کہ کیا مرد کا کوئی کردار نہیں ہوتا؟ جو خراب ہو۔ ان کی عزت نہیں ہوتی؟ جو مجروح ہو۔ اُنکا کوئی سہاگ نہیں ہوتا؟ جو اُجڑ جائے۔ کاش کہ عورت کا بھی کوئی کردار نہ ہوتا، عزت نہ ہوتی۔