counter easy hit

نامور کالم نگار کے سوال پر صمصام بخاری نے مسکراتے ہوئے کیا جواب دیا ؟ جانیے

What did Sammukh Bukhari smile while answering the famous columnist's question? Get it

لاہور (ویب ڈیسک) کچھ روز پہلے جب پنجاب کے بیت المال کے چیئر مین اعظم ملک نے ’’ قلم دوست ‘‘ کے کالم نگاروں کو اپنے گھر کھانے کی دعوت دی جس میں صوبائی وزیر اطلاعات صمصام علی بخاری بھی مدعو تھے تو ان سے وہاں موجود خواتین و حضرات نے چند سوالات کیے۔ راقم الحرئوف نے نامور کالم نگار ناصف اعوان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مشیر اطلاعات سے یہ پوچھنے کی جسارت کی کہ وہ بتائیں ان کی حکومت اپنے پروگرام و منشور پر عمل در آمد کرا سکے گی جبکہ آئی ایم ایف سے انہیں قرضہ لیکر معیشت کا پہیہ رواں رکھنا پڑ رہا ہے اور اس کی شرائط کو ہر صورت ملحوظ خاطر رکھنے کا وعدہ کیا گیا ہے اور اس کی شرائط میں عوامی فلاحی منصوبے کا کہیں کوئی ذکر نہیں یعنی انہیں اپنی اقساط بر وقت ملنی چاہیے خواہ عوام کی سانسیں رک رک کر ہی کیوں نہ چلیں۔؟انہوں نے کہا ! ایسا نہیں حکومت کو آپ بے بس نہ سمجھیں وہ خود مختار ہے اسے اپنے وعدوں کو ہر صورت پورا کرنا ہے تعلیم ، صحت اور انصاف کے میدان میں وہ بہت کچھ کر رہی ہے ۔سات یونیورسٹیاں بنائی جا رہی ہیں حکومت اس پہلو پر بھی کام کر رہی ہے کہ انصاف سہل اور سستا فراہم کیا جائے۔ پولیس کے نظام کو بہتر کیا جارہا ہے لہٰذا جرائم کی شرح کم ہو رہی ہے ۔ ٹیکسیشن کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس میں اصلاحات کی جا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ’’محسوس‘‘ کررہے ہیں کیونکہ اب انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جا رہا ہے ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ حکومت ٹیکس تو لے رہی ہے اس کی واپسی بھی ہو گی یا پھر یونہی معاملات چلائے جائیں گے اس کے جواب میں وہ کہنے لگے کہ نہیں عوام کو سو فیصد سہولتیں ملیں گی اور یہ پہلی حکومت ہو گی جو ٹیکسوں کا استعمال فلاحی منصوبوں پر خرچ کر کے عام آدمی کی زندگی میں انقلاب برپا کر دے گی۔ میرا ایک سوال یہ بھی تھا کہ کیا حکومت مستحکم ہے؟ وزیر اطلاعات نے مسکرا کر کہا کہ ہاں بہت مستحکم ، حزب اختلاف بس دُرفنطنیاں چھوڑ رہی ہے۔ جب اگلے پانچ چھے ماہ گزریں گے تو صاف دیکھا جا سکے گا کہ پاکستان بدل چکا ہے ۔ نظام معیشت سے لیکر نظام سیاست و معاشرت تک میں ایک نیا خوشگوار منظر دھیرے دھیرے ابھر رہا ہے۔ فی الحال تو لوگ سخت خفا ہیں اور ’’ تبدیلی ‘‘ کا مذاق اڑا رہے ہیں انہیں جو کوئی بھی سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ سب ایسے ہی نہیں رہنا حکمرانوں اور بادشاہ گروں کو اس کا فہم و ادراک ہے لہٰذا وہ ضرور حالات کو ان کے موافق بنانے کی جدو جہد کریں گے ، کر رہے ہیں مستحق افراد کو ہیلتھ کارڈ دیئے جا رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے مگر انہیں پہلے روٹی چاہیے ، شاید اسی لیے کچھ لوگوں نے بقول چیئر مین بیت المال کہ ہیلتھ کارڈ کو پچاس ساٹھ ہزار میں فروخت کرنا شروع کر دیا ہے۔ بہر حال مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے تیسے ہمیں غیر ملکی قرضوں سے جان چھڑانے کے لیے آگے آنا ہو گا۔ احتساب کا عمل بھی جاری رہے۔ جس سے یقینا ہمارے دن پھر یں گے ۔بہار کو معطر اور خوشنما رنگوں کے ساتھ جلوہ گر ہونا ہے!

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website