ان عورتوں کے ساتھ بغیر نکاح بھی جسمانی تعلقات قائم کرنا بلکل جائز ہے؟؟ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں ہرمسئلے کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں اور اگر کوئی ضرورت محسوس ہوتو علماءحضرات تشریح کردیتے ہیں لیکن ایک معروف پاکستانی عالم دین نےمخالف صنف سے جسمانی تعلقات کے بارے میں انتہائی متنازعہ فتویٰ دیدیا، وہ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کررہے تھے تاہم ان کی یہ پرانی ویڈیو آج کل انٹرنیٹ پر وائرل ہورہی ہے . تفصیلات کے مطابق علامہ ابتسام الٰہی ظہیر کاکہناتھاکہ ’ غلام عورتوں کے ساتھ بغیر نکاح کے جسمانی تعلقات قائم کرنا جائز ہے، اسلام پر اعتراضکرنیوالے ہم کون ہوتے ہیں، مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ جنگ کے دوران کمانڈر انچیف نے ایک عورت پکڑلی تو اس کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ قتل کردیں یا پھر منڈی بھیج دیاجائے ، تیسری صورت یہ ہے کہ کسی مسلمان کے سپرد کردیں جبکہ دوسری جانب ایک خبر کے مطابق تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہٴ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی۔ یونان میں، مصر میں، عراق میں، ہند میں، چین میں، غرض ہرقوم میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔ لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کی غرض سے خریدوفروخت کرتے ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیاجاتاتھا؛ حتی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا ۔ واہیانہ مذاہب عورت کو گناہ کا سرچشمہ اور معصیت کا دروازہ اور پاپ کا مجسم سمجھتے تھے۔ اس سے تعلق رکھناروحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ دنیا کے زیادہ تر تہذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔ اسے حقیر وذلیل نگاہوں سے دیکھاجاتا تھا۔ اس کے معاشی وسیاسی حقوق نہیں تھے، وہ آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی۔ وہ باپ کی پھر شوہر کی اور اس کے بعد اولادِ نرینہ کی تابع اور محکوم تھی۔ اس کی کوئی اپنی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پر کوئی اقتدار حاصل تھا؛ یہاں تک کہ اسے فریاد کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ بعض مرتبہ عورت کے ہاتھ میں زمام اقتدار بھی رہا ہے اور اس کے اشارے پر حکومت وسلطنت گردش کرتی رہی ہے، یوں تو خاندان اور طبقے پر اس کا غلبہ تھا؛ لیکن بعض مسائل پر مرد پر بھی ایک عورت کو بالادستی حاصل رہی، اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں، جہاں عورتوں کا بول بالا ہے؛ لیکن ایک عورت کی حیثیت سے ان کے حالات میں زیادہ فرق نہیں آیا، ان کے حقوق پر دست درازی جاری ہی رہی اور وہ مظلوم کی مظلوم ہی رہی۔(۱)