لاہور(ویب ڈیسک) کبھی زندگی کا باعث تو کی بار موت کی وجہ ہوتی ہے ۔کبھی امید دل کا سکوں تو کبھی دل کا درد ہے۔انسان اداسی میں خوشیوں کی امید ہوتی ہے بیماری میں شفا کی اور قید میں۔ رہائی کی امید ہوتی ہے ۔مگر چند امیدیں یا توقعات ایسی ہوتی ہیں جو ہم انسان انجانے میں لگا لیتے ہیں یا وابستہ کر لیتے ہیں ان سے جو ہمارے پیارے ہوتے ہیں جو ہمارے دل کےبہت قریب ہوتے ہیں ۔ہم سوچتے ہیں کہ جنہیں ہم محبت کرتے ہیں جن پر ہم حد سے زیادہ انحصار کرتے ہیں ہم جتنا نہ سہی مگر ہم سے بہت محبت کرتے ہیں کہ جب کبھی غم کی کالی بدلیاں چھا جائے تب ہمارے اپنے ہمارے غم خوار ہوں گے اور خوشیوں کی بہاروں میں ہمارے ساتھی ان امیدوں اور توقعات کے سہارے ہمیں انسان اپنے آپ کو آسمانوں میں فضاؤں میں اڑتا ہوا محسوس کرنے لگتے ہیں خوشیوں کا دامن تھامے ہوئے بے فکر وہ کر جیتے ہیں یہ سوچ کر کی اگر کبھی بھولے بھٹکے غم کا دور آیا بھی تو ہمارے سے پیارے ہمارے عزیز ہمارا سہارا بن جائیں گے ہمارا ہاتھ تھام کر خوشیوں کی بہاروں میں لے جائیں گے جہاں ہنسی کے پھول خوشیوں کی خوشبو ہوتی ۔جہاں سہارے کی چھاؤں اور مددگار ہاتھوں کی سیج ہوگی وہ درد ختم ہوکر کہاں چلا جائے گا ہمیں احساس تک نہ ہو گا” مگر” یہیں پر تو ہم انسان دھوکہ اور فریب کا شکار ہوتے ہیں ہم بھول جاتے ہیں کے یہ توقعات یہ امیدیں کبھی پوری نہیں ہوتی ہمیشہ ٹوٹ جاتی ہیں تب ٹوٹنے والی صرف امید نہیں ہوتی بلکہ اس امید کے ساتھ انسان۔ انسان کے ساتھ دل بھی کرچی کرچی ہوکر بکھر جاتا ہے پھر وہ وقت آتا ہے جب ہم ہنستے کھیلتے خوشیوں کی چھاؤں میں رہنے والے انسانوں پر غم کی کالی گھٹا چھا جاتی ہیں توہم معصوم انجان لوگ امید بھری نگاہیں بے خودی میں اپنے پیاروں کی طرف اٹھاتے ہیں یا یوں کہیں کہ نگاہ خود بخود اپنے پیاروں کی طرف اٹھتی ہیں. جو ہمارے دل میں دھڑکن کی طرح بستے ہیں پروہ نگاہیں مایوس ہوکر لوٹتی ہیں ہمارے وہی اپنے نظر بدل لیتے ہیں اور اپنی مصروفیات میں مگن ہوجاتے ہیں تب ہم انسان بھری دنیا میں اکیلے رہ جاتے ہیں تنہا ہو جاتے ہیں پھر وہ آنکھیں کہ جن سے امیدکے جگنو چھلکتے تھے وہ آنکھیں صرف اور صرف آنسوؤں کی مالا بن کر رہ جاتی ہیں جن سے موتیوں کی طرح قطرے ٹپکتے رہتے ہیں اور وہ خشیوں کی بہاریں درد کے طویل صحرا میں تبدیل ہو جاتی ہیں درد اور تکلیف کے اس صحرا میں اتنی تپش ہوتی ہے کہ اس تپتے ہوءے صحرا میں ہم انسانوں کا ہر قدم چھالوں اور آبلوں سے بھر جاتا ہے پھر وہی امید کے ٹوٹے ٹکڑے آبلوں میں دھنس کر پیروں کو لہو لہان کر دیتی ہیں پھر ہم انسان اپنے ٹوٹے ہوئے دل اور دکھتے قدموں کے ساتھ تڑپ تڑپ کر مرنے کی دعا کرتے ہیں کہ شاید اس طرح سے ہماری اذیت میں کچھ کمی واقع ہو مگر اس تنہائی میں بھی ہمارا ہاتھ تھامنے کوئی نہیں آتا کوئی نہیں ہوتا ہماری سسکیاں سننے کو ۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ صحرا میں سیاہی نمودار ہونے لگتی ہیں سیاہی کے چھاتے ہی کیا یخ ہواؤں کا طوفان ہماری جانب بڑھنے لگتا ہے. انسان بے بس ہو کر چیختا ہے چلاتا ہے پھر ایک بار اپنے پیاروں کو پکارتا ہے مگر تب بھی اس کی درد بھری چیخیں سننے والا کوئی موجود نہیں ہوتا اس ٹوٹے انسان کی زبان سے ایک نام ابھرتا ہے اللہ اللہ یہ نام اسے امید دیتا ہے وہ پھر وہ ہستی انسان کو اپنی باہوں میں بھر کر لے جاتی ہے وہاں جہاں کوئی درد نہ ہو کوئی غم نہ ہو جہاں امیدوں اور یادوں کے ٹوٹے ہوئے شیشے نہ ہو جہاں محبت کے نام پر دھوکہ نہ ہو وہ جگہ جہاں صرف سکون ہو وہ اغوش موت کی آغوش اور قبر کی ہیں ہوتی ہے جہاں سوتے ہوئے انسان کے چہرے پر ایک پرسکون مسکراہٹ ہوتی ہے مگر ساتھ ہی وہ پیچھے رہ جانے والے انسان تکلیف دے جانے والے انسان کے لیے سبق ہوتی ہے تو امید جو انسانوں سے لگائی جائے مدد کے سوا کچھ نہیں دیتی سراسر تکلیف دیتی ہے خوشی اور سکون صرف ایک ہی ذات سے لگائی جانے والی امید اور توقعات سے حاصل ہوتی ہے اور وہ ذات ہے خدا کی ذات میرے پروردگار کی ذات ستر ماؤں سے زیادہ انسان سے محبت کرتا ہے مگر ہم اس کو بھول جاتے ہیں