قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے : ”پھر لوط (علیہ السلام)اس پر ایمان لایا اور ابراہیم(علیہ السلام)نے کہا:میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں بے شک وہی عزت وحکمت والا ہے اور ہم نے ان (حضرت ابراہیم علیہ السلام کو)اسحاق (علیہ السلام جیسا بیٹا)اور یعقوب (علیہ السلام جیسا پوتا)اور ہم نے ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی اس کا اجر دیا اور بے شک آخرت میں میں بھی وہ ہمارے قریب ہوں گے۔قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوتاہے:”اورہم نے نجات بخشی اسے اور لوط(علیہ السلام)کو اور اس زمین کی جانب(ہجرت کرنے کا حکم دیا)جس ہم نے بابرکت بنایا تھا تمام جہان والوں کے لئے اور ہم نے اسحق (علیہ السلام جیسا بیٹا)عطا فرمایا اور یعقوب (علیہ السلام جیسا پوتا)اور سب کو ہم نے صالحین میں کیا کہ وہ ہمارے بلانے پر بلاتے ہیں ‘ہم نے ان کی جانب وحی کی ‘اچھے کام کرنے اور نماز قائم رکھنے اور زکوٰة دینے کا حکم دیا اور وہ سب ہماری بندگی کرنے والے تھے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ عزوجل کا حکم ملنے کے بعد ملک شام کی جانب ہجرت کی تیاری شروع کی ۔آپ علیہ السلام کی زوجہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا بھی ہمراہ تھیں جن کی کوئی اولاد نہ تھی ۔آپ علیہ السلام کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام بھی ہمراہ تھے ۔اللہ عزوجل نے ہجرت کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نیک اور صالح اولاد سے نوازا اور نبوت وکتاب کا سلسلہ آ پ علیہ السلام کی نسل پاک میں جاری کیا۔یہ اللہ عزوجل کی آپ علیہ السلام پر خصوصی رحمت تھی کہ آپ علیہ السلام کے بعد جوبھی نبی آیا وہ آپ علیہ السلام کی نسل میں سے تھا اور یہ عزت اور بزرگی آ پ علیہ السلام کے خاندان کا مقدر بنی ۔آپ علیہ السلام نے اپنے ملک اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر ایسی جگہ ہجرت کی جہاں اللہ عزوجل کی عبادت اطمینان وسکون سے کرسکیں اور لوگوں کو دعوتِ حق دیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام ہجرت کرکے ملک شام تشریف لے گئے ۔اس سر زمین کے متعلق اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمایا:”اس سر زمین کی جانب جہاں ہم نے جہان والوں کے لئے برکت رکھی۔“ابن ابی کعب ‘ابو العالیہ اور قتادہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ وہ سر زمین ملک شام ہے ۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ وہ سر زمین مکہ مکرمہ ہے ۔پھر اس کی تائید میں ذیل کافر مانِ الٰہی بیان کرتے ہیں ۔”بے شک لوگوں کی عبادت کے لئے مقرر کیا جانے والا پہلا گھر مکہ میں ہے جو برکت والا اور سارے جہاں کے لئے راہنما ہے ۔“حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اس سر زمین سے مراد ”حران “ہے۔اس سے قبل ہم اہل کتاب کا قول نقل کر چکے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ‘ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام ‘ان کے بھائی ناحور ‘بیوی حضرت سارہ رضی اللہ عنہ اور بھائی کی بیوی ملکا حران میں قیام پذیر ہوئے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد تارخ یہیں فوت ہوئے۔حضرت سدی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام ملک شام کی جانب ہجرت کرکے گئے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملاقات حران کے بادشاہ کی بیٹی حضرت سارہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی جو اپنی قوم کے مذہب پر معترض تھیں اور لعن طعن کرتی تھیں ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس نیک سیرت خاتون سے شادی کی اور ارادہ کیا کہ ان کی موجودگی میں دوسری شادی نہیں کریں گے ۔اس روایت کو ابن جریر نے بیان کیا ہے ۔واللہ اَعلم روایات کے مطابق حضرت سارہ رضی اللہ عنہ ‘حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا حار ان کی بیٹی تھیں جن کے نام سے ”حران“منسوب ہے۔جن لوگوں کا قول یہ ہے کہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہ‘حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھائی حاران کی بیٹی اور حضرت لوط علیہ السلام کی بہن تھیں ان کا قول غلط فہمی پر مبنی ہے اور حقیقت کے منافی ہے ۔جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھتیجی سے شادی کی اور اس دور میں بھتیجی سے شادی جائز تھی جیسا کہ علمائے یہود کا قول ہے تو پھر بھی انبیاء کرام علیہ السلام کی شان سے یہ بعید نہیں کہ وہ ایسا کام کریں جس کی وجہ سے کسی بھی دور میں ان کے اخلاق پر حرف اٹھائے جائیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بابل سے ہجرت کی تو اس وقت حضرت سارہ رضی اللہ عنہ‘ آپ علیہ السلام کے ہمراہ تھیں۔