حسنین جمال اسلام آباد HusnainJamal@
اس نمائش میں 296 فنکاروں کے پانچ سو سے زیادہ فن پارے نمائش کے لیے پیش کیے گئے۔ 2018 کے آخری مہینوں میں امریکی عوام کے لیے سینٹر فار کنٹیمپریری پولیٹیکل آرٹ نے ایک نمائش کا اہتمام کیا۔
اس نمائش میں شامل کئی پوسٹر سوشل میڈیا اور احتجاجی مظاہروں میں گردش کرتے رہے۔
پانچ ہفتے تک جاری رہنے والی اس نمائش میں امریکن لوگوں کی دلچسپی حد سے زیادہ تھی۔ اس نمائش میں 296 فنکاروں کے پانچ سو سے زیادہ آرٹ ورک نمائش کے لیے پیش کیے گئے۔
زیادہ تر فنکار اس نمائش میں امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے پائے گئے۔
اس نمائش میں درج ذیل سوالات پر کام کیا گیا:
کیا یہ نیا امریکہ ہے؟
کیا یہ ایک جمہوری ملک ہے؟
کیا یہاں عقل کی کوئی آواز باقی ہے؟
ماحول کو بچانا کس کا فرض ہے؟
خواتین کے حقوق کا کیا بنا؟
وہ بچے جو اپنے والدین سے الگ ہو چکے ہیں ان کا کیا بنا؟
فائرنگ کے واقعات پر پابندی لگانے والے معاملہ کہاں تک پہنچا؟
ہیلتھ کیئر کے مسائل کا حل کیا ہوا؟ آزاد میڈیا کہاں ہے؟
انسانی حقوق کس قدر پورے ہو رہے ہیں؟
سچائی کہاں ہے؟
یونائٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کو ہو کیا گیا ہے؟
وائٹ ہاؤس سے چند قدموں کے فاصلے پر موجود سینٹر فار کنٹیمپریری پولیٹیکل آرٹ کے اس اقدام کی بازگشت رواں برس 14 فروری کو فلاڈیلفیا سانحے کی برسی کے موقعے پر بھی سنائی دی۔
واضح رہے کہ پولیٹیکل آرٹ عام آرٹ سے اس طرح مختلف ہوتا ہے کہ اس میں سٹائل یا تکنیک زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، بلکہ اس میں زیادہ اہمیت پیش کیے جانے والے مواد اور اس کے ذریعے لوگوں کو چونکانے کی ہوتی ہے۔
گویا کوئی ایسی بات کی جائے جسے سامنے والا اپنے دل میں اترتا محسوس کرے اور وہ سوچے کہ یہ بات تو وہ تھی جو مجھے کرنا تھی۔