لاہور (ویب ڈیسک) پنجاب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سرکاری سکولوں میں پانچویں جماعت تک انگریزی میں تعلیم نہیں دی جائے گی۔ جو دو مضمون انگریزی میں پڑھائے جا رہے تھے وہ دوبارہ اردو میں پڑھائے جائیں گے۔ جب سے یہ فیصلہ پڑھ رہا ہوں فیصلہ سازوں کی عقل پر ماتم کرنے کا دل کر رہا ہے، مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز رہنے والے نامور صحافی محمد اکرم چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ صرف ماتم کا دل نہیں کر رہا فیصلہ سازوں کا سر پیٹنے کا بھی دل کر رہا ہے۔ یہ فیصلے کون کر رہا ہے، ان فیصلوں کے پیچھے کون ہے، قوم کے بچوں کو بین الاقوامی زبان کی تعلیم سے دور کون کر رہا ہے، قوم کو الجھانے کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما ہیں؟؟؟ دنیا ترقی کر رہی ہے اور ہم آج بھی اپنے نصاب میں الجھے ہوئے ہیں، اردو میں تعلیم دی جائے، انگریزی پڑھائی جائے یا عربی پڑھائی جائے ہم یہی فیصلہ نہیں کر پا رہے ہر دوسرے سال کتابوں میں تبدیلی کا حکمنامہ جاری ہو جاتا ہے۔ کیا انگریزی زبان میں تعلیم روکنے سے معیار بلند ہو جائے گا، کیا نظام تعلیم کا سب سے بڑا مسئلہ انگریزی زبان ہے، کیوں عوام کو الجھایا جا رہا ہے۔ ایک طرف انگریزی کے بولنے، لکھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، تو دوسری طرف ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ابتدائی سطح پر انگریزی کی تعلیم کو بند کرنے جیسے تعلیم دشمن فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ قومی زبان کی اہمیت کم کی جائے، اردو کی اپنی اہمیت ہے اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ کیا محکمہ تعلیم اپنی ساری خط و کتابت اردو میں کرتا ہے، کیا وزیر اعلیٰ کے دفتر سے خط و کتابت اردو میں کی جاتی ہے اگر یہ سب سرکاری کام انگریزی زبان میں کرتے ہیں تو پھر قوم کے بچوں کو انگریزی کی تعلیم سے کیوں محروم کیا جا رہا ہے۔ کبھی ایک نصاب کا فیصلہ کیا اس کی کتابیں شائع کیں، پھر اس نصاب میں تبدیلی کی پہلے سے شائع شدہ کتابیں منسوخ کیں پھر نیا نصاب لاگو کیا پھر کتابیں شائع کیں یہ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ کیا اصل مسئلہ انگریزی تعلیم کا ہے یا ایسے فیصلے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے کیے جا رہے ہیں، یا پھر حکام میں اتنی اہلیت نہیں ہے کہ وہ دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق قوم کے بچوں کے لیے معیاری تعلیم کے لیے بہتر منصوبہ بندی کر سکیں۔پنجاب میں اساتذہ کی کمی کتنا بڑا مسئلہ ہے اس کو حل کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ محکمہ تعلیم میں موجود خرابیوں کو دور کرنے کے لیے ٹھنڈے کمروں سے باہر نکلیں۔ ماہر افراد سے مشورہ کریں، ترقی کرتی دنیا کو دیکھیں پھر فیصلہ کریں۔ بین الاقوامی زبان کی تعلیم ضروری ہے۔ ایک طرف آکسفورڈ سلیبس پڑھایا جا رہا ہے تو دوسری طرف انگریزی زبان کی تعلیم پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ ایسے فیصلوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم دو ہزار انیس نہیں اٹھارہ سو پچاس میں زندہ ہیں۔ انگریزی زبان کی تعلیم کا سلسلہ بند کرنے سے انگریزوں کو تو کوئی نقصان نہیں ہو گا البتہ ہمارے بچوں کا ناقابل تلافی نقصان ضرور ہو گا۔ مادری زبان کچھ اور ہے، قومی زبان کچھ اور ہے، مذہب کی زبان کچھ اور ہے تو بین الاقوامی زبان کچھ اور ہے۔ اس سے زیادہ ہم کتنا الجھ سکتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم نے اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مزید الجھایا ہے۔ ماضی میں بھی محکمہ تعلیم کو نظر انداز کیا جاتا رہا اور موجودہ حکومت کے فیصلے بھی ماضی کی حکومتوں کا تسلسل معلوم ہوتا ہے۔