لاہور (ویب ڈیسک) اگر کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات ہے کہ موجودہ پاکستانی حکومت کو جو امریکی راہداریوں میں عزت و تکریم ملی ہے، اس میں انکا کچھ اپنا کمال ہے تو اس خبطِ عظمت کو ذہن سے نکال دیں۔ اس لیے کہ جس قسم کے کردار اور نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس قسم کے “مذاکراتی ڈومور” کی پاکستان سے توقع کی جا رہی ہے، وہ اتنا آسان نہیں ہے۔ ایک جانب مسلّمہ فاتح طالبان ہیں جنہوں نے یہ فتح ،نصرت الٰہی اور “شہادت ہے مقصود و مطلوبِ مومن” کے جوہر سے کشید کی ہے اور دوسری جانب ٹیکنالوجی کے عالمی بت کی بدترین شکست ہے۔ اور اس شکست کو وہ مذاکرات کی میز پر “برابر” کرنا چاہتا ہے۔ میرے ملک کے ٹیکنالوجی پرست دانشوروں کے سامنے بھی میرے اللہ نے حق کو روز روشن کی طرح واضح کر دیا۔ نہ صرف دانشوروں بلکہ اس ملک کے اقتدار پر متمکن تمام قوتوں کو بھی اصل قوت کے مرکز کا پتہ بتا دیا۔ لیکن ہم کس قدر بدقسمت ہیں اس آگہی پر مقامِ شکر ادا کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ پر توکل کا اعلان نہیں کرتے، بلکہ ہم نے پہلی کھیپ کے طور پر امداد کی صورت بھی ایف 16 کی اسی ٹیکنالوجی کی بھیک قبول کی، جسے طالبان افغانستان میں بری طرح شکست دے چکے تھے۔ یہ ورلڈ کپ جیسی فتح نہیں ہے، سدھرنے کا موقع دیا گیا ہے آپکو۔ ایک ایٹمی قوت ہونے کے باوجود میرے اللہ نے آپ سب کو یہ احساس دلایا ہے کہ مرتبہ ومقام انہیں کا ہے جو اسلحہ و بارود پہ توکل سے ماورا ہو کر جنگ لڑتے ہیں۔کل بھی آپ امریکہ کے کہنے پر انکے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور آج بھی اسی امریکہ کے کہنے پر انکو مذاکرات پر امریکی اہداف کیلئے قائل کرنے پر آمادہ کرنے کی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ تو انکا بڑا پن ہے کہ وہ آپکی بات سننے کو تیار ہیں۔ صرف ایک رشتہ ہے طالبان اور آپکے درمیان، امت مسلمہ کا رشتہ، کلمہ طیبہ کا رشتہ۔ یہ اسی کا فیضان ہے، یہ اسی امت کی شرم و حیا ہے کہ آپکی بات سنی جا رہی ہے، آپکو عزت مل رہی ہے۔ لیکن! اور یہ لیکن بہت اہم ہے۔ یہ انتباہ ہے ان تمام لوگوں کے لئے جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مذاکرات کسی سیاسی جدوجہد کرنے والی پارٹیوں کے گروہوں کی طرح ہیں یا پھر ویتنام اور رہوڈیشیا کی طرح قوم پرستانہ جنگ کے نتیجے میں منعقد ہو رہے ہیں ۔ دونوں صورتوں میں مقصد صرف اور صرف اقتدار ہوتا ہے۔ ایک خطے کو آزاد کروا کر اس پر اقتدار اور حاکمیت قائم کرنا۔ اس علاقے پر عوام کے اقتدار کو بحال کرنا۔ لیکن یہاں معاملہ بالکل مختلف ہے اور اس معاملے کا ادراک امریکی حکومت کو لاتعداد مذاکراتی نشستوں کے بعد بخوبی ہو چکا ہے۔ انکو معلوم ہوچکا ہے کہ طالبان کی افغانستان میں جنگ صرف اس خطے میں اللہ کی حاکمیت کے قیام کی جنگ ہے اور اگر ان مذاکرات کے نتیجے میں انہیں اپنا یہ مقصد حاصل نہ ہوا، تو طالبان اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔ سیاسی اور فوجی جنگ والے تو بہر صورت اقتدار چاہتے ہیں۔ انہیں بس اقتدار مل جائے، اسکے بعد جو بھی قوانین نافذ ہو جائیں، انہیں پرواہ نہیں ہوتی۔ لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے۔ یہاں طرز حکومت کا تعین پہلے سے ہونا ہے اور آزادی پر مذاکرات بعد میں۔ اسی لیے 7-8 جولائی 2019 ء کو دوہا میں ہونیوالے مذاکرات کا جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے، اسکی شق نمبر 7 میں امریکہ اور طالبان نے جو روڈ میپ دیا ہے اس کا پہلا نقطہ یہ ہے جس پر دونوں فریق متفق ہوئے ہیں۔ “Institutionalizing Islamic system in the country for the implementation of comprehensive peace” “جامع امن کے لیے تمام اداروں کو اسلامی نظام میں ڈھالنا “۔ یہ وہ بنیادی مقصد ہے جسکے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ طالبان کے نزدیک ملک میں امریکی افواج کا وجود ہے۔ امریکیوں کے انخلا کے بعد وہ اپنے ملک میں اپنی منزل یعنی شریعت کا نفاذ خود قائم کر لیں گے۔ یہ فتح افغان طالبان نے ایک مقدس فریضے “جہاد” کے ذریعے حاصل کی ہے۔ “جہاد” جس لفظ کا استعمال اب پاکستانی میڈیا پر شجر ممنوعہ ہے۔ لیکن اسلامی اماراتِ افغانستان کے یہ سرفروش اسی “جہاد” کے نعرے سے سر بلند ہوئے اور تائید و نصرت الٰہی انکے ہمرکاب ہوئی۔ یہ راستہ آسان نہ تھا۔ یہ آگ کا دریا تھا جیسے وہ عبور کرکے اس منزل تک پہنچے ہیں۔ اگست 2017 ء میں امریکہ نے آخری دفعہ افغانستان پر پوری قوت استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے اس ظلم کو فتوؤں کی چھتری پہنانے کے لیے کابل، انڈونیشیا اور سعودی عرب میں علماء کانفرنسیں منعقد کرائیں۔ لیکن چند سرکاری علماء کے سوا کوئی قائل نہ ہو سکا۔پروردہ این جی اوز سے ہلمند میں پیدل امن مارچ شروع کروایا اور یہاں تک کہ بموں کی ماں، دنیا کا سب سے بڑا غیر ایٹمی بم بھی نہتے عوام پر پھینکا۔ لیکن دوسری جانب اللہ نے فرزانوں کو کامیابی سے سرفراز کیا۔ صرف 2018 کا احوال یہ ہے۔ اس سال دس ہزار چھ سو اڑتیس (10,638) کارروائیاں ہوئیں جن میں 31 فدائی حملے تھے۔ انکے نتیجے میں 249 امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور 153 زخمی۔ وہ افغان فوج جسے امریکہ، بھارت اور ایران نے تربیت دی تھی، اسکے بائیس ہزار پانچ سو چورانوے (22,594) فوجی ہلاک اور 14063 زخمی ہوئے جن میں قندھار پولیس کا سربراہ جنرل عبدالرزاق، ہلمند کا جنرل عبدالجبار قہرمان ، پکتیا کا کمانڈر عزیز اللہ کاروان اور جنرل مومن حسن خیل سمیت 514 کمانڈر شامل تھے۔ 8 ڈرون طیارے اور 17 ہیلی کاپٹرگرائے گئے۔ 3613 گاڑیاں اور ٹینک تباہ کیے گئے۔ اس سب کے نتیجے میں افغانستان کے 61 اضلاع امارات اسلامی کے زیر کنٹرول آگئے۔ دوسری جانب امریکی ظلم و بربریت آگ بن کر شہریوں پر برسی۔ 606 مکانات، 495 دکانیں، 15 سکول، 5 مساجد، 398 موٹر سائیکلیں، 58 گاڑیاں، 7 مارکیٹیں اور 3 کشتیاں تباہ کی گئیں ، جنکے نتیجے میں 2029 شہری شہید اور 1676 زخمی ہوگئے۔ اسکے بعد کا منظر نامہ شکست کا منظر نامہ ہے ۔جنرل نکلسن کی جگہ جنرل سکاٹ میلر آگیا۔ مذاکرات میں امریکہ کی ہزیمت واضح ہونے لگی۔ گوانتانا موبے کے قیدی مولانا فاضل آخوند اور دیگر چار رہنما امریکہ کے مقابل قطر مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔ ملا عبدالغنی برادر قید سے رہا ہوئے اور فاتح طالبان کی ٹیم کے سربراہ مقرر ہوئے۔ رسول اکرم ﷺنے فرمایا تھا “مومن کی فراست سے ڈرو، اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھ رہا ہوتا ہے” (ترمذی، الجامع)۔ مرد مجاہد کی امریکی ریڈیو پر یہ آواز 2001ء میں گونجی تھی “افغانستان میں امریکیوں کی شکست یقینی ہے۔ آج یہ دو ٹوک ہمارے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں لیکن ایک دن آئے گا جب یہ ہم سے مذاکرات کی بھیک مانگیں گے”۔ پاکستان اس امریکی بھیک کا کشکول بردار ہے۔ کاش ایسا ہونے کی بجائے ، یہی کشکول پاکستان کے سامنے بھی طالبان کی طرح براہ راست رکھا جاتا۔ پاکستان کے جوش جذبات میں آئے ہوئے افراد جنہیں اپنے لیڈر کو فتح پر ہار پہنانے سے فرصت نہیں، طالبان ترجمان کے منہ میں اپنے الفاظ ٹھونستے رہے کہ انکو افغان حکومت سے مذاکرات کے لیے قائل کر لیا گیا ہے۔ اسکا جواب طالبان کو براہ راست دینا پڑا کہ وہ افغان حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ وہ انہیں ایک سیاسی گروہ تصور کرتے ہیں،اس حیثیت سے مذاکرات ہو سکتے ہیں لیکن قانونی حکمران کی حیثیت سے نہیں۔ یہ مذاکرات کا پہلا پڑاؤ تھا۔ خان صاحب! ٹیکنالوجی پرست مشیروں نے آپکی زبان سے افغانستان میں “جمہوریت” اور “انتخابات” کے الفاظ بھی نکلوا دیئے ہیں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو امریکہ نے چار سال پہلے بولنا شروع کیے تھے اور طالبان نے انہیں مسترد کردیا تھا۔ طالبان کیا چاہتے ہیں، انکا مقصد کیا ہے، انکی جنگ” مال غنیمت اور کشور کشائی ” کیلئے نہیں تھی، یہ سب باتیں ہیں خان صاحب اور پاکستانی ٹیم کو ذہن نشین کرنا ہونگی۔ طالبان کا تصور جہاد جدید فوج سے مختلف ہے۔ وہ آگ کا دریا عبور کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔ انہوں نے ٹیکنالوجی کے عالمی بت کو شکست دی ہے۔ خان صاحب! ٹیکنالوجی پرستوں کی معیت اور مشورے آپ کو ناکام بھی کر سکتے ہیں ،احتیاط! یہ آگ کا دریا ہے۔