اسلام آباد(ایس ایم حسنین) بھارتی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں اگست 2019 کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے غیر آئینی اقدام کے ڈیڑھ برس بعد محاصرہ اور انتقامی کارروائیاں برقرار لیکن انٹرنیٹ رابطہ بحال ہوگیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ڈیڑھ برس سے بھی زیادہ وقت کے بعد ہفتہ 06 فروری سے تیز اسپیڈ فور جی انٹرنیٹ بحال کر دیا گيا ہے۔ جمعہ 05 فروری کی شام کو کشمیر میں انتظامی امور کے ترجمان روہت کنسل نے ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’جموں و کشمیر کے پورے خطے میں انٹرنیٹ کو بحال کیا جا رہا ہے۔‘‘ غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق سرینگر کے صحافتی حلقوں نے تصدیق کی ہے کہ نیٹ ورک مہیا کرنے والی مختلف کمپنیوں نے جمعہ کی درمیانی شب سے فور جی بحال کرنا شروع کیا تھا اور ’ہفتے کی صبح تک تقریبا سبھی کی اسپیڈ فور جی ہوگئی ہے‘۔ انہوں نے، ’’فون پر انٹرنیٹ فراہم کرنی والی مختلف کمپنیوں کے نیٹ ورک کو چیک کیا ہے اور پہلے کے مقابلے میں اب ویڈیو کی کوالٹی بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ اسیپیڈ بھی بہتر ہوگئی ہے۔‘‘ کشمیر کی کاروباری انجمنوں، اداروں اور سرکردہ سیاسی شخصیات نے اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ عوام کا حق ہے اور بھارتی حکومت نے ایسا کر کے کوئی احسان نہیں کیا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت نے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی اختیارات کو ختم کر تے ہوئے خطے کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس پیش رفت سے کشمیریوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ حکومت نے اس کے رد عمل اور مظاہروں سے بچنے کے لیے خطے کو لاک ڈاؤن کر کے سخت بندشیں عائد کر دی تھیں اور خطے کا باقی دنیا کے ساتھ مواصلاتی رابطہ بھی مکمل طور پر منقطع کر دیا تھا۔ ان اقدامات سے لاکھوں کشمیری نہ صرف بے روزگار ہو گئے بلکہ تعلیم اور صحت کا نظام بھی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ عدالتی چارہ جوئی اور عالمی دباؤ کے بعد حکومت نے کئی ماہ بعد سلسلہ وار فون سروسز اور پھر انٹرنیٹ شروع کیا تھا، تاہم انٹرنیٹ سروسز برائے نام تھیں کیونکہ ٹو جی کی اسپیڈ سے تعلیم اور کاروباری سرگرمیاں مشکل سے چل پا رہی تھیں۔
پیپلز ڈیموکریٹ پارٹی کے ایک ترجمان سہیل بخاری نے بھارتی میڈيا سے بات چیت میں کہا، ’’جموں کشمیر کی پوری عوام کو ایک برس سے بھی زیادہ عرصے سے تیز رفتار والے انٹرنیٹ سے محروم رکھا گيا۔ اس سے صحت، تعلیم، کاروبار سب کچھ متاثر ہوا۔ یہ بحالی ہم پر کوئی احسان نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس پر پابندی ہی نہیں لگنی چاہیے تھی۔‘‘ بھارت نے ہند نواز سمیت تمام کشمیری رہنماؤں، سماجی کارکنان، دانشوروں، سرکردہ وکلاء اور انسانی حقوق کے علم برداروں کو بھی قید کر دیا تھا جس میں سے کچھ کو رہا کر دیا گیا ہے تاہم اب بھی سینکڑوں افراد جیلوں میں ہیں۔