کراچی(ویب ڈیسک)پروگرام ”آپس کی بات“میں میزبان منیب فاروق سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار محمد مالک نے کہا کہ حکومت کی جانب سے جو سب سے اچھا کام ہوا وہ معیشت کے لئے دستاویزات کا تیاری کا سلسلہ ہے پہلی مرتبہ عام زبان پر آیا کہ ٹیکس نیٹ میں سب آئیں گے،جو سب سے بڑا مسئلہ ہوا وہ یہ ہے حکومت کا کام ہوتا ہے امید کی فضا بنانا ایک سال گزرنے کے باوجود یہ فضا قائم نہیں ہوسکی ہے،احتساب میں کمی نہیں آنی چاہئے مگر ساتھ جو حکومت کے لوگ ہیں ان کے نام بھی آنا چاہئیں۔سینئر تجزیہ کار مشرف زیدی نے کہا کہ جو بہترین کام اس حکومت میں ہوا ہے وہ یہ ہے کے تسلسل کے ساتھ اب گیارہواں مہینہ چل رہا ہے کسی طرح کی بھی کوئی دوری فوجی اور سول قیادت کے درمیان نہیں ہوئی ہے یہ بہت بڑی کامیابی ہے بڑے منظم انداز میں ہم نے امریکا کا دورہ دیکھااس کو بھی ٹھیک طرح منتظم کیا اس حکومت نے اور اس کا کریڈٹ تھوڑا بہت فوج کو جاتا ہےجو سب سے بڑی غلطی ہے جس کا پچھتاوا ابھی سے شروع ہوچکا ہے وہ غلطی ٹیم بلڈنگ کی ہے وزیراعظم نے جو سب سے بڑی غلطی کی ہے وہ اپنی کیبنٹ میں سے اسد عمرکو نکال کر کی۔سینئر تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کیا شوکت عزیز اور مشرف کے وقت میں منتخب حکومت تھی کیا ہم ایک پیج پر نہیں تھے چوہدری شجاعت کے ساتھ ایک پیج پر نہیں تھے۔محمد مالک نے مزید کہا کہ جس رفتار سے حزب اختلاف کے ساتھ ہورہا ہے اس میں کمی نہیں آنی چاہئے مگر ساتھ جو حکومت کے لوگ ہیں ان کے نام بھی آنا چاہئیں اور ان کے خلاف بھی اسی رفتار سے احتساب ہونا چاہئے ورنہ شفافیت پر سوالات اٹھ جاتے ہیں جو عمران خان کے اردگرد لوگ ہیں ان کی جائیدادیں ڈالر میں ہیں ان کی زندگیاں ڈالر میں گزری ہوئی ہیں ان کو ان چیزوں کا فرق نہیں پڑتااسد عمر اور حفیظ شیخ کا سب سے بڑا فرق کیا ہے اسد عمر کیونکہ ایک سیاسی شخصیت ہیں حلقہ سے منتخب شدہ تھے چیزیں تبدیل ہونے کی بات ہوتی تھی تو یہ نہیں ہوتا تھا تین فیصد یہاں سے کاٹ دو دو فیصد وہاں سے سیاسی آدمی سوچتا ہے تین فیصد کا مطلب ہے دو لاکھ خاندان یہ جو ٹیکنو کریٹ ہوتے ہیں ان کے لئے لوگ اعدادوشمار بن جاتے ہیں اسی لئے آئی ایم ایف کا جو پروگرام بنا ہم تباہی کی طرف جارہے ہیں۔ اسد عمر کے فارغ ہونے میں فارغ ہونے میں جو سب سے بڑا ہاتھ تھاوہ ایک بہت بڑے انویسٹر کا تھاجو آج کل باہر ایک ملک میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے کیونکہ انہوں نے ایک الیکٹرک کمپنی کی سیلزکے اندر کافی مسائل پیدا کئے ہوئے تھے۔مذہبی کارڈ ایک مرتبہ پھر بہت خوفناک طریقے سے واپس لایا جارہا ہے مولانا فضل الرحمن کا کوئٹہ میں ہونے والا جلسہ پندرہواں جلسہ تھاتحفظ ناموس رسالت ملین مارچ والا جب آپ سیاسی ڈیمانڈز کررہے ہیں تو پھر آپ ناموس رسالت کیوں لے آئے مذہب کارڈ کا بہت برا اثر بھی پڑ سکتا ہے اگر حکومت نے اپنا فنائنس منسٹر تبدیل نہ کیا تو یہ بہت بڑا ڈیزائسٹر ہوگا آپ معیشت کو ری ٹرانسفارم کرنا چاہ رہے ہیں ، لوکل اکنامک گروتھ آپ کی اہمیت رکھتی ہے مگر جس طرح کے فارمولاز فنائنس ایڈوائزر لگارہے ہیں وہ ایسا فارمولا ہے جو نہیں چلے گا 90 فیصد روزگار اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز سے پیدا ہوتی ہے لیکن اس پر 20فیصد تک مارک اپ لگادیا ہے جو پہلے کم شرح سود پر کام کررہے تھے آج وہ کر ہی نہیں رہے ہیں ۔ اسٹیٹ بینک خود کہہ رہاہے کہ پچھلے سال کی نسبت لوگوں نے زیادہ کریڈٹ لیا ہے مگر وہ بزنس میں نہیں لگ رہا ہے بلکہ وہ تو اپنا ادھار بیلنس کرنے میں لگارہے ہیں ۔بجلی بڑھ گئی ، گیس بڑھ گئی مڈل کلاس کا کاروبار کرنا محال ہوگیا ، ڈالر تک تو آپ نے چھوڑ دیا میں اس کو بھی تسلیم کرتا ہوں کہ یہ جو نتائج ہیں وہ سابقہ حکومتوں کے ہیں اور ان کو بھگت بھی رہے ہیں بالکل موجودہ حکومت درست کہتی ہے لیکن حل اس نیٹیکس کی صورت میں نکال دیا ہے اور کہتے ہیں کہ مارک اپ اوپر کردیں مہنگائی نیچے آجائے گی ۔ بات بہت سادہ سی ہے کہ کاروبار چلے گا تو نوکریاں چلیں گی ، نوکریاں چلیں گی تو معیشت مضبوط ہوگی وجودہ حکومت بیلنس کررہی ہے مگر آئی ایم ایف کو دکھانے کے لئے ۔