لاہور (ویب ڈیسک) برف باری اور سندھ میں؟ پہلی بار سُننے میں شاید آپ یقین نا کریں مگر پاکستان کے صوبہِ سندھ کے ضلع دادو میں ایک علاقہ ایسا بھی ہے جہاں سردیوں کے موسم میں واقعی برف پڑتی ہے۔اگر آپ مہم جوئی اور نئی جگہیں تلاش کرنے کے شوقین ہیں تو آپ کے لیے نامور صحافی کریم الاسلام بی بی سی کے لیے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ گورکھ ہِل سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ تو پھر دیر کس بات کی؟ اگر ہماری طرح آپ کو بھی اب تک اس خوبصورت سیاحتی مقام جانے کا موقع نہیں مل سکا تو سامان باندھیں اور ہمارے ساتھ سفر میں شامل ہوجائیں۔کراچی – حیدرآباد موٹروے اور پھر انڈس ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے تقریباً 400 کلومیٹر کا فاصلہ آٹھ گھنٹے میں طے کر کے آپ گورکھ ہِل پہنچ سکتے ہیں اس لیے کراچی سے ہمارا سفر صبح سویرے شروع ہوا۔کراچی حیدرآباد موٹر وے پر سڑک کے دونوں جانب دیوہیکل ٹرک، ٹینکر اور ٹرالر مال لادے اپنی منزل کی جانب سفر کرتے کسی دیومالائی مخلوق کی مانند نظر آتے ہیں۔سامنے دیکھیں تو طلوع ہوتا سورج ایک نئے دن کے آغاز کی نوید سنا رہا ہے۔اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے ہم نے براستہ جامشورو اور سیہون، واہی پاندھی جانے کا ارادہ کیا۔واہی پاندھی گورکھ ہِل جانے کے لیے ایک طرح کا بیس کیمپ ہے جہاں سے جیپ کے ذریعے گورکھ پہنچا جا سکتا ہے۔جامشورو سے سیہون کے لیے روانہ ہوئے تو دائیں طرف دریائے سندھ اور بائیں جانب بلندوبالا پہاڑیاں ایک جادوئی منظر پیش کر رہے تھے۔ہاں اس رنگ میں بھنگ اِس طرح پڑی کہ جب واش روم جانے کی ضرورت پیش آئی تو تمام راستے کوئی ایسی جگہ نہیں ملی جہاں ٹوائلٹ کی مناسب سہولت میسر ہو۔ہوٹلوں اور ڈھابوں میں ٹوائلٹ ہوتے ہیں لیکن اُن میں صفائی کا انتظام ایسا نہیں ہوتا کہ انھیں استعمال کرنے کا سوچا بھی جا سکے۔یہ صورتِ حال خواتین کے لیے خاصی پریشان کُن ہو سکتی ہے لہٰذا اگر کنٹرول ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔تقریباً 350 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ہم ضلع دادو کے چھوٹے سے شہر واہی پاندھی پہنچے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کراچی سے آنے والی نئی نویلی چمکتی دمکتی گاڑیوں کے پر جلنے لگتے ہیں کیونکہ آگے سارا راستہ پتھریلا ہے اور سڑک کی سہولت ناپید ہے۔ان راستوں پر صرف سخت جان فور بائی فور جیپ ہی چل سکتی ہے۔ یہ بھی کوئی عام جیپیں نہیں ہوتیں بلکہ آلٹریشن کروا کر انھیں اس سفر کے لیے 1000 سی سی سے 1600 سی سی بنایا جاتا ہے۔اِن گاڑیوں کو چلانے والے ڈرائیور بھی معمولی لوگ نہیں بلکہ سالہا سال ان ہی پتھریلے راستوں پر گاڑیاں چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ صرف یہ سرپِھرے ڈرائیور ہی اِن خطرناک راستوں پر ڈرائیونگ کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ڈرائیور عبدالستار سے ہم نے کرایہ طے کیا اور اُن کی پوٹھوہار جیپ میں اپنا سامان منتقل کر کے گورکھ ہِل کی جانب روانہ ہو گئے۔واہی پاندھی سے گورکھ ہِل کا فاصلہ ہے تو صرف 50 کلومیٹر لیکن اسے طے کرتے کرتے ڈھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ یہ تمام راستہ سنگلاخ پہاڑوں سے اٹا پڑا ہے۔ جولائی کے گرم موسم میں جب سورج آگ برساتا ہے تو اُس کی تپش پہاڑوں سے ٹکرا کر چہرے کو جُھلسا دیتی ہے۔ہم نے تقریباً 34 کلومیٹر کا فاصلہ ہی طے کیا ہوگا کہ ہمارے ڈرائیور عبدالستار نے ویرانے کے بیچوں بیچ بنے ایک ٹی سٹال پر گاڑی روکی اور اعلان کیا کہ آگے جانے سے پہلے نہ صرف ہمیں ایندھن یعنی چائے کی ضرورت ہے بلکہ جیپ کے ریڈی ایٹر کی پیاس بجھانے کے لیے اُس میں پانی ڈالنا بھی ضروری ہے۔۔ گورکھ ہِل پہنچے تو سورج غروب ہو رہا تھا۔ یہ منظر انتہائی دلفریب تھا۔ پہاڑ کی بلندی سے دیکھا تو سامنے ایک کے بعد ایک پہاڑی پر اندھیرا ہوتا نظر آیا۔ اگلے کچھ لمحوں میں ہر طرف اندھیرا پھیل گیا اور آسمان پر ستاروں کی آمد شروع ہو گئی۔اس مقام پر آسمان خود سے انتہائی قریب معلوم ہوتا ہے یہاں تک کہ آپ ساری رات تارے گن کر گزار سکتے ہیں۔ یہ منظر ہم جیسے شہری لوگوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا جن کی تمام زندگی ٹریفک کے شور اور دھوئیں میں ہی گزری تھی۔گورکھ ہِل میں پرائیوٹ اور حکومت کے زیرِ انتظام ہوٹل موجود ہیں جہاں رات گزاری جا سکتی ہے۔ کھانے اور دیگر لوازمات کے لیے ریسٹورنٹ اور ایک ٹک شاپ بھی ہے لیکن ہر چیز اتنی مہنگی کہ قیمت سن کر کانوں کو ہاتھ لگائے۔سندھ حکومت کی جانب سے قائم کی گئی گورکھ ہِل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جی ایچ ڈی اے) یہاں سیاحوں کو سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے لیکن کم از کم ہمیں اس ادارے کی کوئی خاص کارکردگی نظر نہیں آئی۔جس ہوٹل میں ہم نے ٹھہرنے کا فیصلہ کیا وہاں سہولیات دیکھتے ہوئے کمرے کا کرایہ تین ہزار روپے کچھ زیادہ لگا۔ پتا چلا کہ پورے گورکھ میں نہ بجلی ہے اور نہ ہی نلوں میں پانی آتا ہے۔ گذشہ کئی دنوں سے بجلی کی فراہمی منقطع تھی اور ہوٹل والے جنریٹر سے کام چلا رہے تھے۔یہ سہولت بھی رات ایک بجے بند کر دی گئی اور کمرے کا واحد بلب بُجھ گیا۔ نہانے اور دیگر ضروریات کے لیے بیرے نے بالٹی سسٹم استعمال کرنے کا طریقہ سمجھایا۔۔گورکھ ہِل سٹیشن سطح سمندر سے 5600 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ گرمیوں میں بھی یہاں کا درجہ حرارت 10 سے 15 ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے جبکہ موسم سرما میں درجہ حرارت نقطۂ انجماد سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔مقامی لوگوں نے ہمیں بتایا کہ کبھی کبھی سردیوں کے موسم میں یہاں برف باری بھی ہوتی ہے۔نام کا مطلب کچھ بھی ہو، ایک بات طے ہے کہ گورکھ ہِل کا قدرتی حسن یہاں آنے والوں کی سانسیں روک دینے کے لیے کافی ہے۔ چاروں جانب دُھند میں لپٹی پہاڑیوں اور خطرناک کھائیوں کا نظارہ انسان پر سحر طاری کردیتا ہے۔اگر آپ بھی کراچی کی سارا سال چلنے والی چلچلاتی گرمی سے جان چھڑا کر کسی ٹھنڈے سیاحتی مقام کی سیر کرنا چاہتے ہیں تو گورکھ ہل سٹیشن سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔یہاں آنے کے لیے موسمِ گرما میں جون اور جولائی جبکہ سردیوں میں دسمبر اور جنوری بہترین وقت ہے۔ اگر قسمت ساتھ دے تو کیا پتا آپ یہاں برف بھی گرتی دیکھ لیں اور پھر واپس جا کر اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو بتا سکیں کہ ہاں واقعی سندھ میں برف باری ہوتی ہے۔تو پھر آپ کب گورکھ ہِل جا رہے ہیں؟