لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار ڈاکٹر اے آر خالد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہسپتال سے واپس آتے ہی دوبارہ ڈرائیور کا انتظار کئے بغیر میرے بیٹے پروفیسر ڈاکٹر محمد راشد سراج نے خود جس تیزی سے گاڑی چلائی اس سے یہ اندازہ تو ہو گیا تھا کہ ایمرجنسی بہت ہی شدید نوعیت کی مگر اس کی ساری پروفیشنل زندگی میں اس طرح کی ایمرجنسی کا مشاہدہ نہیں کیا تھا وہ تو ایمرجنسی میں بھی سکون و طمانیت اللہ کے ذکر میں تلاش کر لیتا ہے۔ میں نے فوراً فون کیا کہنے لگا عباس ارسلان کے ابو کی طبیعت خراب ہے اس کی طرف جا رہا ہوں۔ میں نے کہا آرام سے گاڑی چلانا۔ پھر اس کا چند منٹ بعد فون آ گیا کہ انکل بہتر ہیں۔
خطرہ ٹل گیا ہے۔ پرسکون ہیں، تھوڑا ہوش سے بے گانہ ہوئے اب ٹھیک ہیں میں انشاء اللہ جلد گھر آ رہا ہوں۔ اس کی پریشانی کی وجہ سمجھ آ گئی عباس ارسلان معروف بیورو کریٹ سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور وفاقی سیکرٹری داخلہ مہر جیون خاں کا چھوٹا بیٹا ہے۔ راشد کے ساتھ کلاس ون سے ہے اور اس کی کلاس کے محمد رضا سیکرٹری (ایف بی آر) کنسلٹنٹ ڈاکٹر عثمان بشیر، ڈاکٹر عبدالرئوف اور عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی اعصام الحق کریسنٹ سکول کی کلاس ون ڈی سے دوست ہیں۔ یک جان اور کئی قالب۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں ہمہ وقت شریک۔ ان میں سے ہر ایک کی ہر ترجیح اس دوستی کی ترجیح کو پیچھے نہیں کر سکی۔ سگے بھائیوں کا سا پیار ہے بے لوث محبت ، بے پناہ خلوص بے پناہ اپنائیت اور بے لوث، راشد گھر آ کر بھی اس کیفیت سے نہیں نکلا تھا۔ یہ سارے نوجوان مجھے اور میرے اہل خانہ کو اپنے بچوں کی طرح عزیز ہیں اور بھی اس کے دوست ہیں مگر یہ تو عجیب محبتیں رکھتے ہیں۔ میں نے عباس ارسلان کو فون کیا۔