counter easy hit

اسلام آباد پورے ایشیاء میں سی آئی اے کا سب سے بڑا مرکز ہے ، کون سا نامور پاکستانی سیاستدان یہ بات ببانگ دہل کہتا تھا اور اپنی بات کی دلیل کے طور پر کیا کیا واقعات سنا تا تھا ؟

Islamabad is the largest center of the CIA in Asia, which eminent Pakistani politician used to say Babang Dahl and what events he heard as an argument?

لاہور (ویب ڈیسک) مرحوم عبدالولی خان کہا کرتے تھے کہ ایشیا میں سی آئی اے کا سب سے بڑا مرکز اسلام آباد میں ہے۔ سچی بات ہے، مجھے ان کا بیان پڑھ کر ان کے روسی ایجنٹ ہونے کے الزام میں سچائی ملتی تھی۔ پھر ہم نے یہ بھی پڑھا کہ انقلابِ ایران کی پہلی سالگرہ نامور کالم نگار اقبال شام اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔منانے کے لئے تہران میں جو پریڈ ہوئی ،اس کے راستے میں امریکی پرچم کے ساتھ پاکستان کا جھنڈا بھی بچھایا گیا۔ پریڈ کرنے والوں نے ان دونوں جھنڈوں کو بڑی نفرت کے ساتھ روندا۔ کم عمری اور ناپختہ شعور کے باعث ایران بھی دل سے اتر گیا۔ زمانہ¿ طالب علمی کی باتیں ہیں کہ جب ہم اپنے دماغ کے ساتھ ساتھ کسی قدر دوسروں کے فرامین کے اسیر بھی تھے۔اب جب اپنے دماغ سے، اپنے فہم سے ان دو مذکورہ بالا بیانات کا جائزہ لینا شروع کیا تو وہی کلید جستجو راستہ روکے کھڑی تھی: کیوں؟ ولی خان کو ایسا کہنے کی ضرورت کیوں لاحق ہوئی؟ یقینا ان کے پاس معلومات تھیں۔ ممکن ہے، وہ اشاعت کے لائق نہ رہی ہوں۔ پھر جواب ملا تو خوب ملا۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی عمارت کا رقبہ؟ کسی پٹواری سے پیمائش کرائیں، سٹی گم ہو جائے گی۔ پھر وہی کیوں؟ یہ سفارت ہے یا ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارتی کوٹھی؟ ایرانیوںکے پاکستانی پرچم روندنے پر زیادہ سوچ بچار کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اسی واقعے کے اندر جواب موجود تھا۔ ذرا غور کی حاجت تھی جسے ولی خان کے بیان سے ملا کر پڑھا سوچا تو خیال آیا، ایرانیوںنے امریکہ کے ساتھ غایت درجے کی نفرت کے اظہار کا راستہ ان کے پرچم کی بے حرمتی کی صورت میں تلاش کیا۔ اس امریکی دولہا کے لئے شہ بالا کی ضرورت تو تھی نا آخر۔ تو اگر ایرانیوں نے دُنیا بھر کے دو سو کے لگ بھگ ممالک کے پرچموں کا انتخاب نہیں کیا توکیوں، اور جو کیا تو میرے وطن کا ،کیوں؟ اس دفعہ کیوں کے ساتھ، اس کلید جستجو کے ساتھ متعدد ملحقات (Annexures) بھی مشاہدہ کرنے کو ملے۔ شہید ِملت کو جلسہ ¿ عام میں کھڑے ایک یک و تنہا شخص نے گولی کا نشانہ بنایا،وہ کامیاب ہو گیا۔ قانونِ فطرت لاگو کریں تو ذرا دیر میں مجمع اس پر قابو پا لیتا، اس کے پاس چھ میں سے پانچ گولیاں رہ گئی تھیں۔ کتنوں کو مار لیتا، لیکن ہوا کیا؟ اس سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑے پولیس افسر نے اس پر قابو پانے کی بجائے سیدھے سبھا¶ اسے ہلاک کر دیا۔ کیوں نے ایک دفعہ پھر راستہ روک لیا۔ قبل اس کے کہ مَیں اس کلید جستجو کی مدد سے شہید ِملت کی شہادت کا عقدہ حل کرتا، پتہ چلا کہ مجھ سے مدتوں قبل ایک پولیس افسر اس سانحے کے تانے بانے تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ تفتیش سے متعلق فائل لئے وہ متعلقہ حکام کو فائل دینے جا رہا تھا کہ غالباًجہلم کے پاس اس کا جہاز گر کر تباہ ہو گیا۔اب کیوں نے کون کا چولا بدل لیا۔ کیوں کی وجہ تو ظاہر ہے کہ پولیس افسر نے سراغ لگا لیا تھا لہٰذا اس بے چارے کا قصہ بھی تمام کرنا پڑا، لیکن کون کا جواب کون دے؟ اس کے لئے بڑی جرا¿ت اور سوا سیر کلیجہ مطلوب ہے۔ یہاں آ کر مَیں نے عبدالولی خان اور ایرانیوں کے پاکستان کو امریکہ کا شہ بالا بنانے کا آمیزہ سا تیار کیا تو معجون بننے میں کچھ کمی سی معلوم ہوئی۔ اچانک ملک فیروز خان نون یاد آ گئے، جنہیں میں پاکستان کا سب سے بڑا خیرخواہ سمجھتا ہوں۔ انہوں نے کسمپرسی اور تہی دستی کے دور میں مانگ تانگ کر کچھ ڈالر جمع کیے۔ سلطان مسقط کے ساتھ خاموش سفارت کی ۔ اور ان کے صرف نوماہی اقتدار میں گوادر کی طو….یل ساحلی پٹی پر اسلامی جمہوریہ¿ پاکستان کا پرچم لہرانے لگا۔ ملک نون کا جہلم والے اس پولیس افسر کا سا حشر تو نہ ہوا، لیکن پرچم لہرانے والے اس وقوعے کے صرف انتیس تیس دِنوں بعد میجر جنرل اسکندر مرزا نے انہیں معزول کرد یا۔ لیجئے معجون مکمل ہے۔کوئی ایک طیارہ گرا ہو تو اس کی کوئی لمبی چوڑی تحقیق تفتیش کی جائے۔یہاں تو گرنے والے طیاروں کی قطار تقاضا کر رہی ہے کہ با¿ی ذنب قتلت: مجھے کس جرم میں مارا۔ ضیاءالحق شہید C-130 نامی جہاز کے حادثے کا شکار ہوئے۔ اس جہاز کو پاک وَن کہتے تھے۔ اس کا ایک نام ہرکولیس بھی ہے۔ یہ پی آئی اے کی ملکیت تو نہ تھا۔ کسی نجی کمپنی کا اثاثہ بھی نہ تھا۔ مارنے والے نے جنرل ضیاءالحق ہی کو نہیں مارا۔ اسی جہاز میں اسی پاکستان آرمی کا نہایت قیمتی اثاثہ جنرل اختر عبدالرحمن بھی تھے۔اسی جہاز میں ہماری محافظ فوج کے دیگر تین جرنیل بھی تھے۔ ان کے ساتھ چھ بریگیڈیئر اور دیگر فوجی افسر بھی تھے۔ ان کو مارنے والے کون تھے؟ سننے میںآتا ہے اس حادثے کا ذمہ دار امریکہ ہے۔ہو گا یقینا ہو گا شاید نہیںہو گا، لیکن اس سارے منظر میںمجھے کوئی امریکی تو کہیں نظر نہیں آیا۔ پاکستان آرمی کا مکھن اس ایک حادثے کی نذر ہو گیا اور ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ قرآنی رمز کا نشانہ کون لوگ ہیں: وَ فِی±کُم± سمُّعُون….: اور تمہارے اندر ان (دشمن) کے جاسوس موجود ہیں۔بس مجھے ان جاسوسوں کی تلاش ہے، جنہوں نے پاکستان آرمی کویہ ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ابھی حالیہ تاریخ میں ایک چھوٹا جہاز اور بھی حادثے کا شکار ہوا، لیکن اس نے کچھ زیادہ توجہ حاصل نہیں کی۔ تفتیشی مصحف (File) میں لکھا ہے کہ یہ حادثہ تکنیکی خرابی کے باعث تھا۔ مجھے مان لینے میں کوئی تامل نہیں۔ بس دل رنجیدہ اس لئے ہے کہ اس حادثے کے باعث ہماری ایئرفورس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا جس کا کسی کو احساس تک نہیں۔ چیزیں پہلو بہ پہلو چلتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی کثرت اور عامة الناس کے شعور میں بہتری کے باعث اب طریق کار میںتھوڑی تبدیلی آئی ہے۔اب شاطرنے طیارے سے جان لینے کی بجائے اسے مفید کاموں میں لگا دیا ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ بزدل کمانڈو کی تشریف آوری سے قبل کبھی جہانگیر ترین یا ان کے طیارے کا تذکرہ سننے پڑھنے کو ملا ہو۔ ایکا ایکی ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے یہ صاحب ہمارے سیاسی منظر پرکچھ اس طرح پھسکڑا مار کر بیٹھے کہ روبوٹ یا چابی سے چلنے والے کھلونے کے کان میں عاطف میاں کا نام پھونکنے میں پہل ملی تو ان کو اور جہاں سواری کی ضرورت لاحق ہوئی وہاں ان کا طیارہ حاضر! اب طیارے سے مثبت کام لئے جانے لگے۔ ذرا گہرائی میں جھانکا قدرے اطمینان بھی ہوا۔ خود کو فرزیں گرداننے والے بے حقیقت مقامی پیادوں کی مدد سے جو کام شاطر نے 16 اکتوبر 1951ءکو 7اکتوبر 1958ءکو اور پھر 1988ء کے 17 اگست کو کیا تھا، اس دفعہ پاکستان کو اسی مہیب بلیک ہول میں پہنچانے کے لئے 28 جولائی 2017ءکو قلم کی نوک پر موجود کسی نقطے سے وہی کام لیا گیا اور یہ کہہ کرلیا گیا: مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے۔گیت کی لے اور آہنگ انترا بتا رہا تھا کہ وہ جواستاد عبداللہ عزام شہید نے پڑھایا تھا کہ کلام کے ظاہر مفہوم کے اندر ایک مفہوم مخالف رمز کی شکل میں ہوتا ہے۔ معلوم ہوا، قلم کی نوک پر موجود ننھے سے نقطے کی مدد سے دشمن کے بچوں کو پڑھانے کا جو عندیہ گیت میں ظاہر ہو رہا ہے، مفہوم مخالف ذرا دوسرے الفاظ میں دشمن کے بچوں کو سبق سکھانا بتا رہا ہے۔ پھر 28 جولائی 2017ءکو قلم کی نوک پر نقطہ سے وہی کام لیا گیا جو 16 اکتوبر 1951ءکو کوئی تولہ بھر سیسے سے لیا گیا تھا۔ ساری زندگی قلم و قرطاس سے کھیلنے کے باوجود مجھے قلم کی طاقت کا بھرپور انداز ہ پہلی دفعہ ہوا۔ اس کے بعد ملک جو لڑھکنا شروع ہوا تو لمحہ ¿ موجود تک لڑھک ہی رہا ہے۔یہ ہوائی حملہ تھا۔ قبضہ مستحکم کرنے کے لئے پیدل فوج کا وجود ضروری ہوا کرتا ہے۔ چیزیں پہلو بہ پہلو چلتی ہیں۔ امریکہ میں بھی اللہ والے ہوتے ہیں کسی کو یاد ہے انہی میں سے ایک بزرگ خاتون جین ڈکسن ہوا کرتی تھی۔ حاسدوں کی افترا پردازی کے باعث مشہور ہو گیا کہ ان کی پیش گوئیاں سی آئی اے کے آئیندہ کالے کرتوتوں کا اعلان ہوا کرتی تھیں۔ اپنے ہاں یہ کام ہمارے فاتح جلال آباد نے گوجر خان سے شروع کیا۔ پھر ہماری جین ڈکسن کسی اسکیم تھری کے نام سے بھی مشہور ہوئی۔اس معجون مرکب کا جزواعظم 1992ءکا ورلڈ کپ تھا۔ شاطر کو پیادہ درکار ہو یا فرزیں، فیل کی ضرورت ہو یا خود شہ، شرط ایک ہے، اپنے دماغ سے سوچنے والا نہ ہو۔پیدل فوج کی تشکیل و ترتیب یوں مکمل ہو گئی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اس دفعہ ہماری ستر بہتر سالہ تاریخ میں مہرے پہلی مرتبہ شاطر کے حسب ِ منشا مرتب ہوئے ہیں۔ا سٹاک ایکسچینج پٹخنیاں کھاتے کھاتے ایک تہائی، توجہ سے پڑھیے ایک دو نہیں، ایک تہائی قوت کھو چکا ہے۔ روپیہ ستر سالوں میں اوسطاً اتنا بے توقیر نہیں ہوا جتنا گزشتہ آٹھ ماہ میں ہو چکا ہے۔ اور جو پیادہ ان تمام سانحات کا ذمہ دار ہے، گزشتہ دنوں اس کے ملفوظات پڑھنے کو ملے: ”حکومت کرنا تو بڑا آسان ہے“ آبِ زر سے لکھنے کے لائق ان الفاظ کو اس دفعہ رمضان کے دفتری اوقات سے ملا کر پڑھیے، بے سمجھوں کو بھی سمجھ آ جائے گی۔ بینک میں کسی کام سے جانا ہوا تو پتہ چلا بینک دس بجے کھلے گا اور دو بجے بند ہو جائے گا۔واقعی حکومت کرنا تو خاصا آسان ہے۔ بندئہ مومن کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرے، وہی دوسروں کے لئے بھی کرے۔ موصوف جن اوقات میں خود بیدار ہوتے ہیں، پوری قوم کو انہی خطوط پر لے گئے۔اس دفعہ کا پنجہ ¿ وحشت بڑا مضبوط ہے۔ اقتصادی اشاریے جن خطوط پرسِسکتے دکھائی دے رہے ہیں، سرنگ کے دوسرے سرے پر اس کا نشانہ ہمارے ایٹمی اثاثے ہیں۔پھر کون سی ایٹمی طاقت، کون سا دفاعی بجٹ، کون سا صدارتی پارلیمانی نظام، اب بے شک خلافت بنا لو بھائی لوگو! اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔وَ فِی±کُم± سمُّعُون…. : دشمن کے انہی سننے والوں نے ہماری پاک آرمی کے پانچ جرنیلوں، چھ بریگیڈیئروں اور متعدد دیگر افسروں کو خاک نشین کر دیا۔ یہ پاک آرمی افسر اتنے راندئہ درگاہ تو نہ تھے کہ ہمیں سازشیوں کا پتہ بھی نہ چلے۔دیکھتے جائیے! لیکن اونٹ جس کروٹ بیٹھنے جا رہا ہے وہ تو دور سے نظر آ رہا ہے اور لوگ اقتصادی اشاریوں کے تعاقب میںلگے ہوئے ہیں۔ ایٹمی طاقت، کون سا دفاعی بجٹ، کون سا صدارتی پارلیمانی نظام، اب بے شک خلافت بنا لو بھائی لوگو!

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website