لاہور (ویب ڈیسک) دو ماہ قبل پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ضلع پاکپتن میں پہلی مرتبہ خاتون پولیس افسر ایس ایچ او تعینات ہونے والی کلثوم فاطمہ نے اب تک تقریباً دو سو زیادتی کے کیسز نمٹادیئے۔ پاکستان میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات تھم نہیں پا رہے ، اس حوالے سےصوبہ پنجاب کا شہر قصور توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔یہاں کم سن بچیوں کے زیادتی کے بعد انہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ کلثوم فاطمہ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’چند سال قبل جب ان واقعات کے بارے میں سنتی رہتیتھی ، میرے لئے یہ ناقابلِ برداشت تھا،مگر میںکیا کر سکتیتھی، میرےصرف غصہ کرنے یا باتوں سے کمسن بچیاں محفوظ نہیں ہو سکتی تھیں‘۔ان کا کہنا تھا کہ’ میرے دل میں ‘یہ چیز آئی کہ ایک بار اللہ تعالیٰمجھے کسی ایسے عہدے پر پہنچا دے، تو کم از کم میں ان درندوں کو نہ چھوڑوں‘۔ کلثوم فاطمہ نے مزید کہا کہ’مجھے موقع ملا، میںنے مقابلے کے امتحان کے ذریعے پنجاب پولیس میں بطور سب انسپکٹر شمولیت اختیار کی، مجھے کام بھی وہی سونپا گیا جومیں کرنا چاہتی تھی‘۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کلثوم فاطمہ کو ‘تحقیقات بھی ان مقدموں کی سونپی گئیں جو عورتوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی سے متعلق تھے۔ واضح رہے کہ خاتون سب انسپکٹر کلثوم فاطمہ کو ڈی پی او عبادت نثار نے ماڈل تھانہ ڈلو ریام میں ایس ایچ او تعینات کیا تھا۔ ڈی پی او عبادت نثار کا کہنا تھا کہ پاکپتن پولیس میں خواتین افسران کی قابلیت اور اہلیت کسی سے کم نہیں، خاتون پولیس افسر کی تعیناتی سے لوگوں کو فوری انصاف کی فراہمی میں آسانی ہو گی۔