سرینگر(ویب ڈیسک) مقبوضہ کشمیر میں مسلسل 15ویں روز بھی کرفیو برقرار رہا، مواصلاتی نظام معطل ، علاقے میں گزشتہ دو ہفتوں سے لینڈ لائن ، موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز معطل رہیں، وادی میں مزید سوا لاکھ بھارتی فوجی تعینات کردیے گئے ، اسکولز کھلنے کے باوجود ویران رہے جبکہ بازار سنسنان رہے۔پیر کے روز لوگوں نے کم از کم 47مقامات پر کرفیو اوردیگر پابندیاں توڑ کربھارت کے غیر قانونی قبضے اور دفعہ 370کے خاتمے کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے کئے۔کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق بھارتی فورسز نے گزشتہ روزسرینگر کے علاقوںصورہ ، رعناواری، نوہٹہ ، لالبازار، گوجوارہ اور کاٹھی دروازہ اورضلع اسلام آباد کے علاقے ڈورو میں احتجاجی مظاہرین پر گولیاں اور پیلٹ فائر کئے اور آنسو گیس کے گولے داغے جس سے ایک لڑکی اور ایک بچے سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ بھارتی فوجیوں اور دیگر پیراملٹری فورسز کے اہلکاروں نے وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں گھروں پر چھاپوں کے دوران انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے خواتین اور لڑکیوں کی توہین کی اورسیکڑوں نوجوانوں کو گرفتار کرلیاہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار اور قابض بھارتی افواج کے مظالم جاری ہیں،کشمیرمیڈیا سروسز کے مطابق سری نگر کا مصروف علاقہ لال چوک ویران رہا جہاں سڑکوں سے ٹریفک غائب رہی،بھارت مخالف احتجاج روکنے کیلئے جگہ جگہ بھارتی فوج تعینات ہے۔کشمیر میڈیا سروس کےمطابق کرفیو کے باوجود کشمیریوں کے بھارت مخالف مظاہرےجاری ہیں، جو پاکستانی پرچم تھامےآزادی کے حق میں اور’’گوانڈیا گو‘‘کے نعرے لگارہے ہیں۔ کشمیری شہرہوں کا کہنا ہے کہ پورے دن میں کرفیو میں محض ایک گھنٹے کی نرمی سے ہوتی ہے جس سے شدید پریشانی کا سامنا ہے،وادی کی خراب صورتِ حال میں بچوں کو اسکول بھیجنا ناممکن ہوگیاہے۔ دوسری جانب سینئر حریت رہنماؤں سمیت مختلف سیاسی رہنما بھی بدستور نظر بند ہیں یا جیلوں میں قید ہیں۔ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں سکیورٹی پابندیوں کے لگائے جانے کے سولہویں روز بھی حالات معمول پر نہیں آ سکے اور حکومت کی طرف سے پرائمری جماعت تک تعلیمی ادارے کھولے جانے کے اعلان کے باوجود کسی سکول میں کوئی تدریسی عمل شروع نہیں ہو سکا۔دہلی حکومت کی طرف سے غیر اعلانیہ کرفیو میں نرمی کرنے کے اعلان کے باوجود سری نگر سے بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور نے اطلاع دی کہ سرینگر شہر میں کسی جگہ سے بھی پولیس اور فوج کا کوئی ناکہ ہٹایا نہیں گیا۔ریاض مسرور نے مزید بتایا کہ سڑکوں، گلیوں، چوراہوں پر لگے پولیس اور فوج کے ناکے بدستور موجود ہیں اور شہریوں کو ان ناکوں سے گزرنے کے لیے کڑی پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اد رہے کہ مودی حکومت نے ریاست جموں اور کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے ختم کرنے کے یک طرفہ اعلان سے قبل ہی پورے علاقے میں سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے تھے اور فرانسیسی خبر رساں ادارے (اے ایف پی) کی رپورٹ کے مطابق مزید 120،000 فوجی ریاست میں تعینات کیے۔اس سے قبل کشمیر میں پہلے ہی پانچ لاکھ سے زیادہ سکیورٹی اور فوجی اہلکار تعینات تھے۔ریاض مسرور نے بی بی سی اردو سروس کو فون کے ذریعے بتایا کہ اتوار کو سارا دن سرینگر شہر کے تمام علاقوں سے احتجاج، پتھراؤ اور پولیس سے جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نے اس صورتحال کا یہ کہہ کر اعتراف کیا کہ چند واقعات رونما ہوئے جن میں چند پولیس اہلکار اور چند مظاہرین زخمی ہوئے جنھیں ہسپتالوں میں ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد خارج کر دیا گیا۔گذشتہ شب سرینگر میں مقامی انتظامیہ نے تعلیمی ادارے کھولنے اور جزوی طور پر موبائل کی ٹو جی سروس بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔لیکن چند گھنٹوں بعد ہی انتظامیہ نے اپنے اعلان کے برعکس موبائل فون سروس کو دوبارہ مکمل طور پر بند کر دیا گیا اور تعلیمی ادارے کھولنے کے فیصلے کو بدلتے ہوئے کہا کہ صرف پانچویں جماعت تک سرکاری سکول بند رہیں گے۔