اسلام آباد (ویب ڈیسک) نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف فروغ نسیم نے چند روز قبل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے ملاقات کرنے کا اعتراف کر لیا۔ انہوں نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چند روز قبل میری چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے ملاقات ہوئی تھی لیکن اس ملاقات کا جج کے تبادلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خبر من گھڑت ہے کہ وزارت قانون انصاف واٹس ایپ پر جج تبدیل کرواتی ہے۔ انہوں نے سوال اُٹھایا کہ اگر تبادلے کا نوٹیفکیشن 26 اگست کو جاری ہوا تو جج صاحب 28 اگست تک اس عدالت میں کیا کر رہے تھے۔اُن کا کہنا تھا کہ اپوزیشن بہت ساری تبدیلیاں چاہتی ہے لیکن حکومت چاہتی ہے نیب کے ہاتھ پاؤں نہ باندھے جائیں۔ نیب بڑی کرپشن کو روکنے کے لیے بنا تھا لیکن بد قسمتی سے اس کا غلط استعمال بھی ہوا۔ ماضی میں نیب قوانین کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے اور ان اس میں بہتری کے لیے حکومت سنجیدہ ہے۔ حکومت نیب قوانین کا غلط استعمال روکنے میں دلچسپی رکھتی ہے، جسمانی ریمانڈ کو 90 دن سے کم کر کے 45 دن کرنے پر غور کیا جارہا ہے اور وزیراعظم کی خواہش ہے کہ نیب قوانین میں مزید بہتری لائی جائے۔ ان کا کہنا تھا قومی احتساب بیورو میں اختیارات کا غلط استعمال بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور بیوروکریٹ فائلوں پر دستخط کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ انہوں نے عدلیہ کی آزادی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 20 سال پہلے اور آج کی عدلیہ میں فرق ہے اور پاکستان بہتری کی جانب جا رہا ہے، چیف جسٹس پاکستان کسی سے ہدایت نہیں لیتے اور ہمیشہ درست فیصلہ کرتے ہیں۔ وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے 18 ترمیم بنائی انہوں نے ڈیڈلاک کی صورت میں کوئی راستہ نہیں نکالا۔ حکومت نے قانونی مراحل طے کر لیے ہیں، اس معاملے پر اب عدالت جو فیصلہ کرے گی اُسی کو تسلیم کیا جائے گا۔