اسلام آباد (ویب ڈیسک) اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بلین ٹری سونامی اور ترقیاتی منصوبوں کیلئے 579 ارب روپے کی منظوری دے دی ہے۔ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی زیر صدارت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران ترقیاتی منصوبوں کے لئے مجموعی طور پر 579 ارب روپے کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں بلین ٹری سونامی منصوبے کیلئے 125 اعشاریہ 184 ارب روپے کی منظوری دی گئی ۔ مذکورہ منصوبے کے تحت ملک بھر میں 3 ارب درخت لگائے جائیں گے جن میں سے 10 فیصد پھلدار درخت ہوں گے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کراچی کیلئے 95 ارب روپے کی لاگت سے بی آر ٹی پراجیکٹ اور پانی کے منصوبے کی منظوری دی۔ سندھ کے سیکنڈر سکولوں کی بہتری کے لئے 13 ارب روپے منظور کیے گئے۔ گوادر کو نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے اور 17 ہزار پانی کے ٹینک بنانے کے منصوبے کی منظوری دے دی گئی۔ علاوہ ازیں زمین کو ہموار کرنے کے منصوبے کے لئے 8 ارب ، صحت سہولت پروگرام کیلئے 31 اعشاریہ 935 ارب اور کاسا 1000 پراجیکٹ کی ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے لئے 46 اعشاریہ 80 ارب روپے کی منظوری دی گئی۔ یاد رہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے جنگلات میں سال 2018-19 کے دوران آتشزدگی کے واقعات میں 12لاکھ سے زیادہ درخت جل گئے جن سے ایک طرف جہاں تقریبا دوکروڑ 72 لاکھ روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا وہیں تحریک انصاف حکومت کی سونامی ٹری مہم کو بھی زبردست جھٹکا لگا ہے۔ صوبائی محکمہ جنگلات نے اس نقصان کی تصدیق کردی ہے۔ایک سینئر افسر نے بتایا کہ ان واقعات کی محکمانہ انکوائری تو کرائی جارہی ہے تاہم اس کی جامع اورآزادانہ تحقیقات کیلیے وزیراعلی خیبرپختونخوا سے جے آئی ٹی بنانے کی درخواست کی ہے۔صوبائی محکمہ جنگلات نے صوبے کے جنگلات کو3 ریجنز میں تقسیم کررکھا ہے ان میں سینٹرل سدرن،ہزارہ اور ملاکنڈ ریجن شامل ہیں۔دستاویزات کے مطابق سینٹرل سدرن ریجن جس میں پشاور، مردان،چارسدہ، کوہاٹ،بنوں،ڈیرہ اسماعیل خان لکی مروت اور نوشہرہ کے اضلاع شامل ہیں۔ان اضلاع میں 88 ہزار708 درخت جلے ہیں۔اگرنقصان کا اندازہ لگائیں توان کی مالیت 98 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ہزارہ ڈویژن میں ایک کروڑ 70 لاکھ،ملاکنڈ ڈویژن میں تین لاکھ 60 ہزار مالیت کے درختوں کا نقصان ہوا ہے۔محکمہ جنگلات کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ اگرچہ جنگلات میں لگی آگ پر قابوپانا محکمہ جنگلات کی ذمے داری نہیں تاہم محکمہ کی طرف سے مشتبہ افراد کیخلاف ایسے واقعات کے 27 کیس درج کرائے گئے ہیں۔سینٹرل سدرن ریجن میں 9،ہزارہ میں 13 اور ملاکنڈ ڈویژن میں پانچ کیس درج کیے گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ صوابی اور نوشہرہ کی چراگاہوں میں بھی آگ لگنے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔محکمہ کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ تین برسوں کی نسبت گزشتہ ایک سال کے دوران جنگلا ت میں آگ لگنے کے واقعات کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔ سال 2018-19 کے دوران 139 مقامات پر آگ لگی اور اس سے ایک ہزار 735 ایکڑ رقبہ پرجنگلات متاثرہوئے۔ا س کے برعکس 2015-16 کے دوران صرف 370 ایکڑ پرجنگلات میں آگ لگی تھی لیکن اس کے بعد اگلے دوبرسوں میں یہ شرح ایک ہزار414 اور دوہزار 793 تک پہنچ گئی۔ان واقعات پر قابو پانے کیلئے محکمہ نے ایک سٹینڈرڈ پروسیجر تیارکیا ہے۔اس کیلئے ٹیمیں بنائی جائیں گی جو ہرسال انتظامیہ سے مل کر دفعہ 144 کے تحت آتشبازی پرپابندی لگوائیں گی۔ترقیاتی کاموں کیلئے مختص زمین اور جنگلات کے درمیان 100 میٹر کے بفرزون بنائے جائیں گے۔جنگلات سے پانچ سو میٹر کے اندر کے علاقے میں کوڑا کرکٹ دفن کرنے پر بھی پابندی لگادی جائیگی۔