لاہور (ویب ڈیسک) سرمایہ کاری سے وابستہ تنازعات کے بین الاقوامی ادارے نے ایک بار پھر پاکستان کے الزامات مسترد کرتے ہوئے ریکوڈیک کیس میں پاکستان پر چھ ارب ڈالر کا جرمانہ برقرار رکھا ہے،اب پاکستان جرمانے کی منسوخی کیلئے عالمی ٹربیونل میں جائے گا،اسے کہتے ہیں۔۔ کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا آیا کتا کھا گیاتو بیٹھی ڈھول بجا ۔۔۔ نامور کالم نگار ایثار رانا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ کتنے جتن سے ہم نے آئی ایم ایف کے پاس اپنی غیرت حمیت گروی رکھ کے چھ ارب ڈالر کا قرضہ لیا تھا۔لیکن دوسری عالمی عدالت نے ایک جھٹکے میں وہ قرضہ جرمانے میں بدل دیا۔بدقسمتی سی بد قسمتی ہے۔ کیاقوم کبھی یہ جان سکے گی کہ اس کے ذمہ دار کون ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری بہت انصاف پسند تھے وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھتے تھے ریکوڈیک پہ اپنے فیصلے کے دوران کاش وہ دوسری آنکھ سے انٹرنیشنل قوانین کو بھی دیکھ لیتے۔میں انہیں نواز شریف آصف زرداری سے بھی زیادہ قومی مجرم قرار دیتا ہوں۔لیکن کیا انہیں صرف اس لیے معاف کردیاجائیگا کہ وہ سیاستدان نہیں۔ایک طرف نواز اور زرداری سے پلی بارگین کے ذریعے قومی دولت واپس لینے کی باتیں ہورہی ہیں دوسری طرف قوم کو اپنے جذباتی فیصلے سے چھ ارب ڈالر کا نقصان پہنچانے والے کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ انہیں بھی کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔کرپشن کیا صرف مالی ہوتی ہے اخلاقی کرپشن اور بدنیتی پر مبنی فیصلے کرپشن نہیں؟؟؟کیا ہم۔یہ طے کرچکے ہیں کہ انصاف کے نام۔پہ مخالفین کو رگڑا لگانا ہی احتساب ہے۔میں آصف زرداری کا سخت ترین مخالف ہوں لیکن اگر آصفہ زرداری کو ان سے ملنے دیاجاتا تو کونسی قیامت آجانی تھی؟کیا ملک میں سب جیل مینوئل کے مطابق ہورہاہے۔مہنگائی روز بروز بڑہ رہی ہے۔جنگ کے بادل ہمارے۔سروں۔پر منڈلارہے ہیں۔۔جنگ میں بہت ہلاکتیں ہوتی ہیں۔لیکن غربت بھوک سے زیادہ نہیں۔میری اعلی ترین عدالتوں سے درخواست ہے وہ رکوڈیک کیس میں ملوث عناصر کو احتساب کے دائرے ہیں۔لائیں۔قوم کی تباہی کے اکیلے ذمہ دار سیاستدان نہیں باقیوں نے بھی حصہ بقدر جثہ اپنا کردارنبھایاہے۔ہاں اگر ہم یہ طے کرچکے ہیں کہ انصاف اور قانون کامطلب صرف مخالفین کو ٹھکانے لگانا ہے تو پھر ایسے ہی چلنے دیں۔لیکن خاکم بدہن انصاف کے بغیر ریاستیں اپنا وجود کھودیتی ہیں پاکستان ہم سب کا ہے اور اسکے وجود کی حفاظت کے بھی ہم سب ذمہدار ہیں۔ہم آواز اٹھاتے رہیں گے تاکہ ہمارا ضمیر مطمئن رہے۔