اسلام آباد(ویب ڈیسک )پاکستان اسٹیل ملز (پی ایس ایم) کے اسٹیک ہولڈرز نے وزیراعظم عمران خان کو دہائیوں سے خسارے کا شکار ملک کے سب سے بڑے صنعتی کمپلیکس کی فروخت یا بحالی میں تاخیر پر خبردار کردیا۔ملازمین، پینشنرز، سپلائرز، ڈیلرز اور کنٹریکٹرز پر مشتمل پی ایس ایم کے اسٹیک ہولڈرز گروپ (پی ایس ایم ایس جی) کا کہنا تھا کہ ‘یہ حیرت انگیز بات ہے کہ نئی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے کے بعد بھی پاکستان اسٹیل ملز کو انتظامی ڈھانچا اور بورڈ آف ڈائریکٹرز نہیں مل سکے، وفاقی وزرا پی ایس ایم کو درپیش چیلنجز پر بات کرنے سے قاصر ہیں۔گروپ کے کنوینئر ممریز خان نے ڈان کو بتایا کہ وزیر اعظم کو ان کے مشیر پی ایس ایم سے متعلق روڈ میپ کے بارے میں گمراہ کررہے ہیں جو جون 2015 سے بند ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو بتایا گیا تھا کہ پی ایس ایم کو سرمایہ پاکستان کمپنی کے ذریعے بحال کیا جائے گا جس کے بعد اسے پبلک پرائیوٹ شراکت داری کی پیشکش کا کہا گیا اور پھر دوبارہ اسے ایکٹو نجکاری کی فہرست میں ڈالا گیا۔انہوں نے کہا کہ پی ایس ایم کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے گیس سپلائی کم کرکے بند کردیا تھا اور پھر تحریک انصاف کی حکومت نے بھی کوئی مختلف کام نہیں کیا اور اس نے بھی اس صنعتی کمپلیکس بند رکھا ہے۔ممریز خان کا کہنا تھا کہ پی ایس ایم جی نے حکومت کو کمپنی کے موجودہ پلانٹ کو بحال کرنے اور اس کی صلاحیت 3 گنا بڑھا کر 30 لاکھ ٹن تک کرنے کی پیشکش کی تھی تاکہ اس کا مزید خسارہ کم کیا جاسکے، غیر ملکی زرمبادلہ کا نقصان کم کیا جاسکے اور مقامی صنعت و معیشت کی مدد کی جاسکے تاہم ان کی پیشکش پر عمل نہیں کیا گیا۔نجکاری کمیشن کو بھیجے گئے خط میں پی ایس ایم سی کے اسٹیک ہولڈرز گروپ کا کہنا تھا کہ ان کے اراکین وزارت صنعت و پیداوار کے متاثرین ہیں، جن کے 80 ارب روپے کے بقایاجات ہیں تاہم اس پر کوئی سنوائی نہیں ہوئی اور 190 ارب روپے کے دیگر قرض دہندگان بھی پی ایس ایم میں پھنسے ہوئے ہیں، جولائی 2019 میں وزارت کا مجموعی قرضہ 270 ارب تھا جبکہ وزیر اعظم کو رواں ماہ کے آغاز میں وزارت نے وزیر اعظم کو یہ 217 ارب روپے بتایا گیا۔خط میں کہا گیا کہ وزارت صنعت نے پی ایس ایم کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اور قرضوں کی ادائیگی کے بغیر نجکاری کمیشن کو پبلک پرائیوٹ شراکت داری کی پیشکش کی تھی، یہ اقدام نہایت ناقص تھا کیونکہ نجکاری کمیشن صرف نجکاری کرسکتی ہے اور اس کے پاس پبلک پرائیوٹ شراکت داری کا مینڈیٹ نہیں ہے۔گروپ کا کہنا تھا کہ پی ایس ایم بورڈ رواں سال 28 مارچ سے غیر فعال ہے اور اس کا کوئی چیئرمین بھی نہیں جبکہ انتظامی ڈھانچا بھی موجود نہیں، چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) کا عہدہ اپریل 2016 سے خالی ہے۔پی ایس ایم بورڈ نے وزارت صنعت سے گزشتہ سال ستمبر میں اس عہدے پر مستقل تعیناتی کی درخواست کی تھی تاہم اس درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔گروپ کا کہنا تھا کہ پی ایس ایم کے 4 سالہ اکاؤنٹس (جولائی 2015 سے جون 2019) کے بغیر کسی وجہ کے آڈٹ بھی نہیں کیا گیا ہے اور 5 اگست کو وزیر اعظم کو بتائے گئے 217 ارب کے قابل ادا قرضوں اور واجبات میں بھی کوئی صداقت نہیں۔پی ایس ایم کی پیداوار میں کمی جون 2015 میں گیس کے بل کی ادائیگی نہ کرنے پر کمپنی کی جانب سے گیس کے دباؤ میں کمی کرنے کی وجہ سے ہوا اور حکومت اس کام کو 4 سال میں بھی بحال کرنے میں ناکام رہی ہے۔پی ایس ایم کے قرض دہندگان کی جانب سے مقامی و بیرون ممالک عدالتوں میں دائر کیے گئے کئی کیسز زیر التوا ہیں، پی ایس ایم کے کوک اوون بیٹری پلانٹ (سی او بی پی) اور اس کی 2 بیٹریاں بھی 2010 سے کوک پیدا کیے بغیر ہیٹنگ موڈ پر ہیں جس سے ماہانہ 5 کروڑ روپے کی گیس صرف ہورہی ہے جبکہ اس کے ملازمین کو کبھی بھی تنخواہ وقت پر نہیں ملتی۔5ہزار سے زائد ملازمین 19-2013 کے درمیان ریٹائر ہوئے ہیں ان کے ریٹائرمنٹ واجبات 17 ارب سے زائد ہیں جو قابل ادا ہیں جس کی وجہ سے سندھ ہائی کورٹ نے 20 اگست 2019 کو ملازمین کی تنخواہ کی ادائیگی تک وزارت صنعت کے اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم دیا ہے۔