لندن (ویب ڈیسک) سونیا خان کا نام جمعرات سے پہلے کسی نے نہیں سنا تھا کیونکہ وہ اُن درجنوں خصوصی مشیران میں سے ایک تھیں جو مختلف حکومتی وزرا کے لیے کام کرتے ہیں۔لیکن ان کی اپنے عہدے سے برطرفی کی خبر تمام برطانوی اخباروں اور ویب سائٹس پر شہ سرخی بنی۔ سونیا خان کی اس اچانک نامور صحافی ساجد اقبال بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں۔۔۔ اور روکھے انداز میں برطرفی سے ان کے باس اور پاکستانی نژاد برطانوی وزیر خزانہ ساجد جاوید خوش نہیں اور انھوں نے اس کا اظہار برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن سے بھی کیا ہے۔ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں ایک اجلاس کے دوران ساجد جاوید نے وزیر اعظم سے اس فیصلے پر وضاحت طلب کی۔جمعرات کی شام چھ بجے سونیہ خان کو ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ میں وزیراعظم کے چیف ایڈوائزر ڈومینک کمنگز کے ساتھ ملاقات کا پیغام موصول ہوا۔برطانوی اخبار ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق سونیا وہاں سات بج کر 45 منٹ پر پہنچیں۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ملاقات ساجد جاوید کی جانب سے اگلے بدھ کو برطانیہ کے دار العوام میں بجٹ پیش کرنے کے اعلان کے بارے میں ہو گی۔لیکن اگلے مالی سال کے دوران مختلف اداروں کے بجٹ میں اضافے کی پیشگوئی پر بحث کے بجائے اس ملاقات نے ایک بالکل مختلف اور غیر متوقع رخ اختیار کر لیا۔ڈومینک کمنگز نے ان سے دریافت کیا کہ آیا وہ سابق وزیر خزانہ فلپ ہیمنڈ سے رابطے میں ہیں۔ ہیمنڈ اکتوبر کے اختتام تک برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے پرعزم وزیرِ اعظم جانسن کے ساتھ ایک کھلی سیاسی جنگ لڑ رہے ہیں۔اگست کے شروع میں ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ نے کنزرویٹو پارٹی کے ناراض اراکین کے ایک گروہ پر الزام لگایا تھا کہ اس نے فلپ ہیمنڈ کی سربراہی میں آپریشن ییلو ہیمر کے تحت یورپی یونین سے بغیر ڈیل بریگزٹ معاہدے کی حکومتی منصوبہ بندی کی تفصیلات لیک کیں، جس سے بغیر ڈیل کے بریگزٹ کی صورت میں حکومت کو نقصان پہنچنا تھا۔ تاہم فلپ ہیمنڈ نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔سونیا خان نے جواب میں بتایا کہ جب سے وہ ساجد جاوید کی خصوصی مشیر بنی ہیں، تب سے انھوں نے فلپ ہیمنڈ سے کوئی بات نہیں کی۔ڈومینک کمنگز نے پھر پوچھا کہ کیا انھوں نے حال ہی میں فلپ ہیمنڈ کے کسی سابق ساتھی سے کوئی ملاقات کی ہے۔ سونیا خان نے جواب میں کہا کہ وہ دو ہفتے قبل ان کے ایک ساتھی سے ویسٹ منسٹر میں ایک ’سماجی ملاقات‘ کے لیے ملی تھیں۔سونیا خان نے اپنے ذاتی اور کام کے فون دونوں ڈومینک کمنگز کو پکڑا دیے تاکہ وہ ان کی جانچ پڑتال کر سکیں۔ ڈومینک کمنگز کو پھر معلوم ہوا کہ سونیا خان نے ایک ہفتہ قبل اپنے فون سے فلپ ہیمنڈ کے سابق ساتھی سے بات کی تھی۔ اور پھر انھوں نے ان پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا۔سونیا خان نے کہا کہ انھوں نے سوچا کہ شاید وہ (ڈومینک کمنگز) صرف ملاقات کا پوچھ رہے تھے۔ مبینہ طور پر ڈومینک کمنگز نے ان سے کہا: ’آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے کیا کیا ہے‘ اور پھر انھیں نوکری سے فارغ کر دیا۔ یہ ملاقات صرف 10 منٹ کی تھی۔ڈومینک کمنگز کمرے سے باہر گئے اور ایک مسلح پولیس افسر کو اندر بھیجا تاکہ سونیا خان کو ان کے دوسرے خصوصی مشیر ساتھیوں کے سامنے اس عمارت کے مرکزی دروازے سے باہر چھوڑ کر آئیں۔ باہر جاتے ہوئے انھوں نے اپنے ساتھیوں کو دیکھا جو کسی اور اجلاس کی تیاری کر رہے تھے۔سونیا خان کو ڈاؤننگ سٹریٹ کے آخر میں ایک دروازے کے باہر لے جایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ اپنا داخلی پاس واپس کر دیں۔ وہ واپس وزارتِ خزانہ میں اپنے دفتر گئیں جہاں انھیں ایک سرکاری افسر ان کے میز پر لے گیا تاکہ وہ وہاں سے اپنا ذاتی سامان سمیٹ لیں۔سونیا خان کی برطرفی کی تیزی نے سب کو حیران کر دیا۔ سب سے غیرمعمولی بات یہ تھی کہ ساجد جاوید کو یہ سب ہونے کے بعد ان کی برطرفی کا علم ہوا۔سونیا خان کی ذاتی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں لیکن ان کے مختصر کریئر کے بارے میں سب معلوم ہے۔برمنگھم میں پیدا ہونے والی 27 سالہ خصوصی مشیر ان درجنوں ’سپیڈز‘ یا سپیشل ایڈوائزرز میں سے ہیں جو وائٹ ہال میں اپنے وزرا کی آنکھ اور کان بنے ہوتے ہیں۔کنزرویٹو پارٹی کے حلقوں میں انھیں ایک باصلاحیت نوجوان کارکن کے طور پر جانا جاتا ہے جس نے یونیورسٹی آف برمنگھم سے سنہ 2014 میں پولیٹیکل سائنس کی ڈگری حاصل کی۔ یہ سرکاری یونیورسٹیوں کی تنظیم رسل گروپ کی ٹاپ یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔کہا جاتا ہے کہ سونیا خان برمنگھم کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر بھی مہم چلانے میں کافی تجربہ رکھتی ہیں۔ اپنے تعلیمی سفر کے دوران انھوں نے برمنگھم میں بچوں کے ایک ہسپتال اور ’ایج کنسرن‘ نامی خیراتی تنظیم کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کیا تھا۔انھوں نے جنوری 2014 میں ٹیکس اصلاحات کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ٹیکس پیئرز الائنس میں بطور انٹرن شمولیت اختیار کی۔ تین ماہ کی انٹرن شپ مکمل ہونے پر مارچ 2014 میں انھیں بالکل بنیادی سطح پر مہم چلانے کے لیے کیمپین مینیجر بنا دیا گیا۔گریجویشن کے بعد وہ خصوصی مشیر کی حیثیت سے حکومتی سروس کا حصہ بنیں اور کئی وزرا کے ساتھ کام کیا۔ انھوں نے بین الاقوامی تجارت کے سابق وزیر ڈاکٹر لیئم فاکس کے ساتھ پریس سیکریٹری کی حیثیت سے بھی کام کیا ہے۔پھر انھوں نے سابق وزیر اعظم ٹریزا مے کے دور حکومت میں سابق وزیر خزانہ فلپ ہیمنڈ کے ساتھ کام کیا۔ اس سال کے شروع میں جب ساجد جاوید نے وزارت خزانہ کا عہدہ سنبھالا تو انھیں دوبارہ نوکری پر رکھ لیا گیا۔کم عمر ہونے کے باوجود وہ وائٹ ہال کا تجربہ رکھتی ہیں۔ وہ حکومت سروس کے بینڈ ٹو میں ہیں جس میں عموماً 70 ہزار پاؤنڈ سالانہ تنخواہ دی جاتی ہے۔سونیا خان کی برطرفی وزیر اعظم بورس جانسن اور ساجد جاوید کے درمیان مبینہ طور پر چپقلش کا نتیجہ بنی ہے۔اطلاعات کے مطابق ساجد جاوید نے جمعے کو بورس جانسن سے ملاقات کی جس میں ان کے چیف ایڈوائزر ڈومنک کمنگز بھی موجود تھے۔ ساجد جاوید نے اس ملاقات کے دوران وزیراعظم سے سونیا خان کی برطرفی پر وضاحت طلب کی۔ٹیلی گراف اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ساجد جاوید کے ایک ساتھی نے کہا کہ وہ بہت ’ناراض‘ ہیں اور اس اقدام سے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے باہمی اعتماد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا: ’فیصلے کون کر رہا ہے؟ بورس یا کمنگز؟ اس پر ساجد بہت ناراض ہیں اور مجھے نہیں لگتا وہ اس بات کو بھول جائیں گے۔ یہ اعتماد کا سوال ہے۔‘’اگر وزیر اعظم چانسلر کو قابلِ اعتماد چاہتے ہیں تو چانسلر بھی بدلے میں یہی چاہے گا۔‘البتہ ساجد جاوید ہفتے کو بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم کے ساتھ سونیا خان کی برطرفی پر بحث پر کھل کر بات کرنے سے گریز کرتے رہے۔بی بی سی ریڈیو 4 کے پروگرام ٹوڈے میں ساجد جاوید کا کہنا تھا کہ وہ ’ذاتی مسائل‘ پر بات نہیں کریں گے۔ لیکن انھوں نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے میرے خیالات سمجھے جا چکے ہیں۔‘انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ وزیراعظم کے ساتھ ان کے تعلقات ’بہترین‘ ہیں اور لیبر پارٹی کے ان دعوؤں کو ’نامعقول‘ قرار دیا کہ وزارت خزانہ ڈومنک کمنگز چلاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں: ’ہر حکومت کے مخالف ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ ایسی تصویر کشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کا وجود ان کی خواہش تو ہو سکتی ہے، مگر حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔