لاہور (ویب ڈیسک) نائن الیون کے بعد پاکستان میں کارگل کے ہیرو جنرل پرویز مشرف کی تو ٹانگیں کانپ رہی تھیں کہ کہیں امریکہ پاکستان پر نہ چڑھ دوڑے مگر ہمارے تھیٹرز میں لطیفے جنم لے رہے تھے۔ امان اللہ سے جو آج کل بستر علالت پر ہیں اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے، نامور کالم نگار ارشاد احمد عارف اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ امریکہ پر حملہ ہوا تو ڈرامے کے دوران ساتھی فنکار نے پوچھا ’’اگر یہ واقعہ پاکستان میں ہوتا تو ہماری حکومت کیا کرتی؟‘‘ امان اللہ نے ترنت جواب دیا، ’’کرنا کیا تھا، ڈبل سواری پر پابندی لگا دیتی‘‘۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔ یہ واقعہ مجھے رحیم یار خان، لاہور اور پاکپتن میں پولیس گردی کے واقعات کے بعد انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کی طرف سے تھانوں میں موبائل فون کے داخلے اور تھانیدار سے نچلے درجے کے ملازمین پر استعمال کی ممانعت کا سن کر یاد آیا۔ انسپکٹر جنرل پولیس کی طرف سے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ دوران ڈیوٹی کوئی اہلکار فون استعمال کریگا نہ اعلیٰ افسر کی ویڈیو بنائے گا۔ عمران خان نے 2013ء سے 2018ء تک یہ کریڈٹ لیا کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے تھانہ اورپٹوار کلچر تبدیل کیا، رشوت، سفارش اور دبائو کا خاتمہ ہوا اور عام شہری کو پولیس اہلکاروں کے جسمانی اور پٹواری کے ذہنی تشدد، استحصال سے نجات ملی، 2018ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پنجاب کے عوام کو مژدہ سنایا گیا کہ یہاں بھی اولین فرصت میں تھانہ کلچر تبدیل ہوگا، خیبرپختونخوا کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درانی کو پولیس اصلاحات کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا جس سے عوام کو آس بندھی کہ تحریک انصاف واقعی تھانہ کلچر تبدیل کرنے میں سنجیدہ ہے مگر جونہی پاکپتن میں خاتون اول بشریٰ بی بی کی صاحبزادی کے ساتھ پولیس کی بدتمیزی کا واقعہ ہوا، آئی جی پنجاب محمد طاہر نے بعض افسروں کی تبدیلی سے انکار کیا، پولیس اصلاحات کے سارے دعوے پس پشت چلے گئے۔ آئی جی پنجاب محمد طاہر کی راتوں رات تبدیلی کو ناصر خان درانی نے ناپسند کیا اور استعفیٰ دیدیا۔ انہیں روکنے کے بجائے عمران خان نے غنیمت جانا اور رسمی طور پر بھی پوچھنا گوارا نہ کیا کہ ایک ایماندار، باصلاحیت اور تبدیلی کا خواہش مند افسر استعفے دینے پر کیوں مجبور ہوا۔ پنجاب میں پولیس کلچر تبدیل تو خیر کیا ہونا تھا صورتحال پہلے سے زیادہ خراب ہے۔ ہمارے رپورٹر کی تحقیق کے مطابق دھڑے بازی عروج پر ہے اور پولیس اہلکاروں کا ایک مضبوط دھڑا زیر حراست ملزموں، عام شہریوں، بالخصوص خواتین کے ساتھ تشدد کے واقعات اور ان کی سوشل و ریگولر میڈیا میں وسیع کوریج کے ذریعے من پسند نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے، یہ طے کرنا باقی ہے کہ اس دھڑے کا ٹارگٹ کون ہے؟ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار یا آئی جی پنجاب عارف نواز۔ پنجاب صوفیا کی سرزمین ہے اور یہاں کے لوگ امن پسند مشہور ہیں جبکہ خیبرپختونخوا میں سخت جان، کہسار صفت پختون بستے ہیں جن کی درشت مزاجی ضرب المثل ہے مگر پنجاب پولیس سے یہ کریڈٹ کوئی نہیں چھین سکتا کہ اکھڑ پن اور مردم آزاری میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ خیبرپختونخوا پولیس ناصر درانی سے پہلے بھی پنجاب پولیس کے مقابلے میں بہتر تھی اور اب مزید بہتر ہے۔ میاں شہباز شریف کے دور میں پنجاب پولیس نے جعلی پولیس مقابلوں میں نام کمایا، سردار عثمان بزدار کے دور میں اس نے راہ چلتے شریف شہریوں، زیر حراست ملزموں اور خواتین سے ظلم و زیادتی کے ریکارڈ قائم کیے۔ رحیم یار خان میں صلاح الدین اور لاہور میں عامر مسیح کی دوران تحویل ہلاکت کے علاوہ خواتین اور شہریوں سے پولیس کی بدسلوکی کے واقعات صرف محکمے ہی نہیں پنجاب حکومت اور عمران خان کے لیے بھی ندامت کا باعث بنے، ایک سال کے دوران تھانہ کلچر تبدیل ہونے کے بجائے اگر مزید خرابی کا شاہکار نظر آئے اور آئی جی پولیس، وزیر اعلیٰ پنجاب یا ان کے مشیر شہباز گل یہ کہنے پر اکتفا کریں کہ ستر سال کی خرابیاں راتوں رات دور نہیں ہو سکتیں تو عوام کے غم و غصے میں اضافہ کیوں نہ ہو۔ویسے بھی موجودہ حکمران ان خرابیوں کو دور کرنے کے لیے آئے ہیں ان کا جواز پیش کرنے یا ان کو بڑھانے کے لیے نہیں۔ ایک خاتون پولیس اہلکار کی ایف آئی آر میں اگر محرر پولیس ملزم کا نام غلط لکھ دے اور ملزم کی ضمانت ہو جائے تو لوگ مذاق کیوں نہیں اڑائیں گے اور خاتون پولیس اہلکار دلبرداشتہ کیوں نہ ہو۔ پولیس اہلکاروں کی زیادتیاں روکنے اور محکمے کو عوام دوست بنانے کے بجائے پولیس اہلکاروں پر یہ پابندی عائد کرنا کہ وہ موبائل فون استعمال نہ کریں۔ مذاق نہیں تو کیا ہے؟ جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ پولیس اہلکار اپنا فرض ادا کرنے کے بجائے فون سنتے رہتے ہیں لیکن یہ شکایت تو عوام ہی نہیں ارکان اسمبلی تک کو ہے کہ اعلیٰ پولیس افسران دوران ملاقات انہیں نظرانداز کرتے اور فون پر گپ شپ میں لگے رہتے ہیں۔ یہ احکامات چونکہ پولیس اہلکاروں کی بدسلوکی اور گالم گلوچ کی ویڈیوز منظر عام پر آنے کے بعد جاری کیے گئے لہٰذا یہ تاثر پھیلا کہ پولیس اور بدسلوکی کے واقعات کی پردہ پوشی کے لیے پابندی لگائی گئی ہے، یعنی 9/11جیسے کسی واقعہ کی روک تھام کے لیے ڈبل سواری پر پابندی۔ پنجاب کے آئی جی نے آئندہ زیر حراست ملزم کی حراست پر ایس ایچ او کو بلیک لسٹ کرنے کی یقین دہانی کرائی جو غنیمت ہے لیکن ان ایس ایچ اوز کو کھلی چھٹی دینے والے ڈی ایس پی اور ایس پی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اور ان سے اوپر کے افسران جو ذاتی پسند و ناپسند کے علاوہ طاقتور افراد اور گروہوں کی خوشنودی کے لیے اپنے ماتحتوں سے غیر قانونی دھندہ کراتے اور داد پاتے ہیں۔ جب تک پنجاب پولیس سیاسی دبائو اور سفارش کے کلچر سے آزاد نہیں ہوتی، پولیس افسران و اہلکاروں کو قانون کی پابندی راس نہیں آتی اور انہیں ہر وقت کسی ایم پی اے، ایم این اے، وزیر مشیر اور وزیر اعلیٰ کی ناراضگی کی صورت میں کھڈے لائن لگے رہنے کا دھڑکا رہے گا، کام چور اور حرام خور افسروں کی پذیرائی اور دیانتدار، قاعدے قانون کے پابند افسروں و اہلکاروں کی حوصلہ شکنی کا کلچر موجود ہے۔ اصلاح کی کوئی کوشش کامیاب ہو سکتی ہے نہ پنجاب پولیس کا کلچر تبدیل ہونا ممکن۔ ایس پی اور ڈی ایس پی سطح کے افسر صبح و شام عوامی نمائندوں اور حکمرانوں کے عزیز و اقارب، دوست احباب کی خاطر تواضع بلکہ چاپلوسی میں لگے رہتے ہیں کہ وہی انہیں اعلیٰ افسران کے عتاب سے محفوظ اور اپنے منصب پر قائم رکھ سکتے ہیں۔ پولیس کلچر تبدیل کرنے کے لیے جہاں پولیس اہلکاروں کی انسانی ضرورتوں کو مدنظر رکھنا، انہیں انسان دوست ماحول فراہم کرنا اور ہر طرح کے دبائو سے آزادی دلانا ضروری ہے۔ وہاں انہیں پبلک ڈیلنگ کے جدید طور طریقوں کی تعلیم دینا بھی لازم ہے۔ فوج اور موٹروے پولیس کے اہلکار عام پولیس اہلکاروں سے زیادہ دبائو اور مشکل صورتحال میں کام کرتے ہیں مگر عام شہریوں سے ان کا رویہ خاصہ بہتر ہوتا ہے، وجہ؟ وہ اپنی ڈیوٹی قاعدے قانون کے مطابق ادا کرتے ہیں اور انہیں کسی طاقتور، بارسوخ اور چہیتے سے قاعدے کے مطابق سلوک کی پاداش میں معطل بلکہ برطرفی کا اندیشہ لاحق نہیں ہوتا۔ ان کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر بھی کارگزاری او رضرورت کے تحت ہوتی ہے، سفارش یا دبائو پر نہیں۔ عمران خان کے برسراقتدار آنے پر توقع تھی کہ پولیس اور بیورو کریسی میں سیاسی اثر و رسوخ کا خاتمہ ہو گا اور ارکان اسمبلی کی بلیک میلنگ سے نجات ملے گی، پولیس اور پٹواری عوام دوست نہ بن سکے تو کم از کم ان کی عوام دشمنی کی دیرینہ عادت تبدیل ہو گی مگر تاحال کچھ بھی نہیں بدلا۔ البتہ زیر حراست ملزموں کی ہلاکت کی پردہ پوشی کے لیے نسخہ کیمیا دریافت کر لیا گیا ہے۔ اُمید ہے اب صلاح الدین جیسا کوئی مست ملنگ مارا گیا تو سوشل اور ریگولر میڈیا کو کانوں کان خبر ہو گی نہ پاکپتن میں اہم شخصیات کی پروٹوکول ڈیوٹی کرنے والے پولیس اہلکار کی ویڈیو لیک لیکن سرعام شہریوں کی پٹائی کرنے والے اہلکاروں کی پردہ پوشی کا کوئی اہتمام بھی ہونا چاہئے کیوں نہ کیمرے والے فون کو وائرلیس کی طرح عام شہریوں کے لیے ممنوع قرار دیدیا جائے، نہ رہے بانس نہ بجے بانسری!