اسلام آباد (ویب ڈیسک)سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حسن عسکری نے کہاہے کہ امریکہ طالبان سے بہت محدود مقاصد کیلئے مذاکرات کررہا تھا ، اس کا مقصد صرف اتنا تھا کہ جب امریکی افواج انخلاءکریںگی تو طالبان انخلاءکرتی ہوئی امریکی فوج پر حملے نہیں کریں گے ۔ دنیا نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے حسن عسکری نے کہا کہ امریکہ طالبان سے بہت محدود مقاصد کیلئے مذاکرات کررہا تھا ، اس کا مقصد صرف اتنا تھا کہ جب امریکی افواج انخلاءکریںگی تو طالبان انخلاءکرتی ہوئی امریکی فوج پر حملے نہیں کریں گے ۔حسن عسکری کا کہنا تھا کہ امریکہ مستقبل کی توبات ہی نہیں کررہا تھا اور اس لئے تو افغان حکومت ناراض تھی ۔ انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ مذاکرات نہیں کرناچاہتا تو امریکہ کیلئے افغانستان سے انخلاءمیں مشکلات زیادہ ہونگی ۔ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ افغانستان سے محفوظ انخلاءچاہتاہے تو طالبان سے مذاکرات کرنے ہونگے ۔ امریکا اور طالبان کے مذاکرات ختم ہونے کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، امریکی حکام نے طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر کو واشنگٹن آنے کی دعوت دی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر دورہ امریکا مشروط کردیا کہ پہلے معاہدے کا اعلان کریں پھر امریکاجائیں گے۔امریکی اخبار کے مطابق صدر ٹرمپ نے طالبان کے حالیہ حملے کو ایک سال سے جاری مذاکرات کا سلسلہ ختم کرنے کے اعلان کا بنیادی سبب قرار دیا ، تاہم اعلٰی حکام کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی راہ مسدود ہونے کا سب سے بڑا سبب طالبان کا کسی ڈیل کے لیے امریکی شرائط اور کیمپ ڈیوڈ میں سربراہ ملاقات کے حوالے سے امریکا کے قدرے عجلت پسندانہ منصوبے کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایک مرحلے پر ایسا لگتا تھا کہ مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور اب کوئی ڈیل ہوا ہی چاہتی ہے مگر پھر اچانک اس بات پر اختلافات رونما ہوئے کہ ڈیل کو حتمی شکل کس طور دی جائے۔ امریکی صدر نے طالبان سے مذاکرات میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا اور شدید تنقید کے باوجود چند ایک امور طے پاگئے تھے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان کے صدر اشرف غنی اور طالبان کے قائدین کو واشنگٹن بلانے کی تیاری بھی شروع کردی تھی۔ یہ تجویز غیر معمولی حد تک جرأت مندانہ ہی نہیں، بلکہ ایک خاص حد تک ترپ کا پتا پیش کرنے جیسی تھی۔ سینیٹر لنڈسے گراہم نے ایک انٹرویو میں ٹرمپ انتظامیہ کو مشورہ دیا کہ ہمیں پاکستان کیساتھ روابط بہتر بنانے پر فوکس کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ، جس میں آزاد تجارتی معاہدہ شامل ہو۔ طالبان کا یہ یقین ٹوٹنا چاہیے کہ انہیں پاکستان میں محفوظ پناہ گاہ مل سکتی ہے۔ ادھر امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ ہم افغانستان میں پولیس کا کردار اداکرتے رہے ، یہ ہمارے بہادرفوجیوں کا کام نہیں تھا۔