موجودہ حکومت کا ایک کریڈٹ ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔اس حکومت نے جرنلزم سے وابسطہ لوگوں کو تھرٹ بننے نہیں دیا پہلی حکومتیں جرنلسٹوں کے ہاتھ میں کھیلتی تھیں۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف آخری وقت تک عاصمہ شیرازی صاحبہ کو اپنا نجات دہندہ سمجتے رہے۔
پچھلی حکومتوں میں جینوئن صحافیوں نے بھی بہت پیسا بنایا لاکھوں میں تنخواہ بھی ان کا اونٹ کے منہ میں زیرہ لگی۔ جہاں سیاست دانوں کے بیرونی دنیا میں اثاثے ہیں واہاں ہمارے صحافی بھائی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ حامد میر بھائی کے بنگلادیس اور نجم سیٹھی کے امریکہ میں اثاثے چھپائے نہیں چھپتے۔
جتنا بوسٹ اس شعبہ کو ملا ہے پریس کھوتی ریھڑی کے پیچھے بھی لکھا ملا ہے۔ اسی بوسٹ میں اس شعبہ میں دو نمبر لوگوں کی بھر مار ہو گئی اور اتنی ہو گئی کہ جینوئن جرنلسٹ کارنر ہو گئے۔ دو نمبر صحافیوں کا دور دورہ تھا اور مسخرے پن کو عروج ایسے میں شریف آدمی پریشان اور شراتی حیران اور دونمبر خوشحال ہوئے۔ دونمبروں نے جینوئن لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی۔ اور یہی ان کی پہچان ٹھری جس سے عام انسان پریشان ہو وہ دو نمبر ہے۔ جس سے دونمبر لوگ پریشان ہوں وہ جینوئن جرنلسٹ ہے۔
آج کے دور میں کسی سے توپ لینے کی ضرورت نہیں وقت نے توپ آپ کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ اس کا استعمال آنا چاہیے۔ اللہ پاک توپ چلانے کی توفیق نہ دے اللہ سب کا بھرم قائم رکھے اور دونمبروں کو سیدھا راستے پے آنے کی توفیق دے۔آمین