شاید دیگرصحافیوں کی اکثریت کا بھی یہی عالم ہوگا۔مجھے اپنی لاعلمی کا اعتراف کرنے میں لیکن کوئی عار نہیں۔’’ہورہے گا کچھ نہ کچھ‘‘ کہتے ہوئے ایک اہم سوال کی طرف بڑھتے ہیں۔ سوال جو میرے ذہن میں اٹک گیا ہے اور جس کا مناسب جواب نہیں مل رہا وہ یہ ہے کہ اگر نواز شریف کے ساتھ کوئی ڈیل یا ڈھیل ہوبھی گئی تو میرے یا آپ جیسے تنخواہ داروں اور کم آمدنی والوں کی زندگی میں ٹھوس اعتبار سے کیا تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ دست بستہ عرض کروں گا کہ ممکنہ ڈیل یا ڈھیل کے باوجود آئی ایم ایف کے تیار کردہ اس نسخے پر عمل درآمد آئندہ تین برسوں تک جاری رہے گا جو نظربظاہر ہماری معیشت کو ’’صحت یاب‘‘ کرنے کے بعد ’’مستحکم‘‘ بنانے کے لئے عمران حکومت نے کافی مزاحمت دکھانے کے بعد بالآخر قبول کرلیا ہے۔یاد رہے کہ یہ معاہدہ ریاستِ پاکستان اور ایک عالمی ادارے یعنی آئی ایم ایف کے مابین ہواہے۔ ’’ڈیل یا ڈھیل‘‘ اس کی شرائط میں کوئی نرمی نہیں لائے گی۔مولانا فضل الرحمن صاحب کا ’’آزادی مارچ‘‘ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو بھی گیا تب بھی ریاستِ پاکستان کے ایک عالمی ادارے سے ہوئے معاہدے پر عملدرآمد آئندہ تین برسوں تک لازمی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں لہذا بڑھتی رہیں گی۔ حکومتِ پاکستان کو ٹیکسوں کے ذریعے خسارہ کم کرنے کی مشقت میں لگے رہنا ہوگا۔ کسادبازاری اس کے سبب جاری رہے گی۔ ارجنٹائن اور مصرمیں آئی ایم ایف کے تیار کردہ نسخے پر من وعن عملدرآمد نے بعینہ ایسا ماحول بنایا ہے۔مصر کے صدر کو اس ماحول نے پریشان نہیں کیا۔ ارجنٹائن میں لیکن نئے انتخابات کے نتائج عوامی غصے واضطراب کا بھرپور اظہار ثابت ہوئے۔ اصولی طورپر ہمارے ہاں نئے انتخاب 2023میں ہونا ہیں۔فرض کریں مولانا فضل الرحمن نے انہیںقبل از وقت کروانے کی کوئی صورت نکال بھی لی تو کیا ضمانت ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ شرائط میں کسی نرمی کی صورت برآمد ہوجائے گی۔ مجھے ’’ڈیل یا ڈھیل‘‘ اور ’’آزادی مارچ‘‘ کے بارے میں قیاس آرائیوں سے کہیں زیادہ فکر یہ دریافت کرنے کی لاحق ہے کہ آیا آئی ایم ایف کے ساتھ ریاستِ پاکستان کا جو معاہدہ طے ہوچکا ہے اس پر نظرثانی کی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے یا نہیں۔اگر آئی ایم ایف کا پروگرام واقعتا خلقِ خدا کے لئے ناقابلِ برداشت ہے تو اسے رد کرنے کی ہمت پیدا کرنے کے لئے ہمارا متبادل منصوبہ ممکنہ طورپر کیا ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ جو بھی ہے محض گپ شپ ہے۔’’وڈے لوگوں کی وڈی باتیں‘‘ جن کا میری اور آپ کی روزمرہّ زندگیوں سے براہِ راست تعلق نہیں ہے۔ )
لاہور (ویب ڈیسک) نواز شریف کے ساتھ ’’ڈیل یا ڈھیل‘‘ کی افواہیں دوبارہ گردش میں ہیں۔مولانا فضل الرحمن ’’لاکھوں‘‘ کے اجتماع کے ساتھ اسلام آباد میں کوئی دھرنا نما رونق لگانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس دیکھنے پارلیمان جاتا ہوں تو وہاں موجود رپورٹروں کی اکثریت ایوان میں جاری کارروائی پر نامور کالم نگار نصرت جاوید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ توجہ دینے کے بجائے ’’ڈیل یا ڈھیل‘‘ کی ممکنہ تفصیلات جاننے کی تڑپ میں مبتلا نظر آتی ہے۔ بہت معنی خیز انداز میں سوال اٹھائے جاتے ہیں کہ مولانا کے ’’آزادی مارچ‘‘ کے ’’پیچھے کیا ہے‘‘۔ اپنی زندگی کے کم از کم 25برس متحرک رپورٹنگ میں گزارنے کے بعد عمر کے آخری حصے میں داخل ہوتے ہی ’’دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے…‘‘ والی بے اعتنائی نے دل ودماغ پر طاری ہونا شروع کردیا۔اس کے سبب ڈیل یا ڈھیل کے بارے میں ہوئی گفتگو میں شریک ہونے کو جی ہی نہیں چاہتا۔یہ اعتراف کرنے کے باوجود میرا صحافیانہ تجربہ یہ دعویٰ کرنے کو مجبور کررہا ہے کہ اس ضمن میں ٹھوس اطلاع فقط چند لوگوں کے پاس ہے۔ جن ’’طاقت ور وباخبر‘‘ تصور ہوتے وزراء سے رپورٹر’’خبر‘‘ معلوم کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں وہ اس حوالے سے اتنے ہی بے خبر ہیں جتنے میں یا آپ۔ اس صدی کے آغاز میں جب نواز شریف صاحب کو جدہ بھیجنے کی تیاری ہورہی تھی تو اسلام آباد میں مقیم ایک خلیجی ملک کے سفیر میرے بھائیوں جیسے دوست بن چکے تھے۔ گھنٹوں میرے ساتھ اکیلے بیٹھے امریکہ کے عرب ممالک کے بارے میں ’’اصل ارادوں‘‘ کے ذکر میں مصروف رہتے۔ جس ملک کی نمائندگی پاکستان میں کررہے تھے وہاں کے سربراہ سے وہ قبائلی تعلق کے سبب بہت قریب تھے۔ان کی اس اہمیت کو جانتے ہوئے کئی عرب ممالک کے سفارت کار ان کے قریبی دوست ہونے کی کوششوںمیں مصروف رہتے۔
نواز شریف کی جدہ روانگی سے تقریباََ چھ ہفتے قبل مذکورہ سفیر نے مجھے محتاط سفارتی انداز اختیار کرتے ہوئے اس ’’خبر‘‘کے بارے میں ذہنی طورپر تیار کرنا شروع کردیا۔ مجھے ہرگز اعتبار نہیں آیا۔چند دنوں بعد میری جنرل پرویز مشرف کے ایک بہت ہی قریب تصور ہوتے وفاقی وزیر سے تنہائی میں ملاقات ہوگئی۔ میں نے جان کی امانت پاتے ہوئے انہیں اطلاع دی کہ سفارتی تقاریب میں جاتا ہوں تو اکثر سفارت کار وہاں میرے ساتھ نواز شریف کی جلاوطنی کے امکانات کا ذ کر چھیڑدیتے ہیں۔براہ کرم میری رہ نمائی فرمائیں کہ انہیں کیا جواب دیا کروں۔وزیر موصوف نے نہایت رعونت سے میری ’’عقل‘‘ پر حیرت کا اظہار کیا۔مجھے یوگنڈا کے صدر عدی امین کی یاددلائی۔ کئی برسوں تک امریکہ اور یورپ میں تھرتھلی مچانے کے بعد عدی امین بالآخر سعودی عرب میں پناہ گزین ہوا اور اپنے انتقال تک گمنامی کی نذر ہوگیا۔ انہوں نے عدی امین کا ذکر کیا تو میں نے ایک بار پھر جان کی امان پاتے ہوئے اس شبے کا اظہار کیا کہ وہ میری ’’خبر‘‘ کی گویا تصدیق کررہے ہیں۔نواز شریف کو عدی امین بنانے کی تیاری ہورہی ہے۔’’اگر ایسا ہو جائے تو ملک وقوم کے لئے بہتر نہیں ہوگا؟‘‘ یہ سوال داغنے کے بعد انہوں نے موضوعِ گفتگو بدل دیا۔بالآخرنواز شریف صاحب کا طیارہ جب اسلام آباد سے جدہ کے لئے روانہ ہوگیا تو اس کے چند ہی گھنٹے بعد میری ایک ریاستی ادارے کے اہم ترین عہدے دار سے کھانے کی دعوت میں ملاقات ہوگئی۔ ان کے ساتھ میرے ذاتی ہی نہیں خاندانی مراسم تھے۔
میں نے انہیں دیکھ کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ نواز شریف کی جلاوطنی کیسے ممکن ہوئی۔ موصوف واقعتا تلملا گئے۔ مجھے افواہ طرازی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اپنے دفاع میں صرف یہ عرض کیا کہ نواز شریف کا طیارہ تو اسلام آباد سے رخصت ہوچکا ہے۔انہیں اعتبار نہ آیا۔ڈرائنگ روم سے اپنا سیل فون اٹھاکر لان میں چلے گئے۔غالباََ چند لوگوں کو فون کرتے ہوئے میری پھیلائی ’’افواہ‘‘ کو چیک کیا۔ تھوڑی دیر بعد ڈرائنگ روم میں واپس آئے تو فقط یہ کہتے ہوئے دیگر مہمانوں سے گپ شپ میں مصروف ہوگئے کہ میری اطلاع درست تھی۔ ایمان داری کی بات ہے کہ ذات کے مجھ ایسے رپورٹر کو اس روز “جاننے کی ضرورت”والی اصطلاح کی حقیقی معنوں میں سمجھ آئی۔ ریاستی معاملات بہت پیچیدہ اور گھمبیر ہوتے ہیں۔اقتدار میں موجود ہر شخص کو ہر بات نہیں بتائی جاتی۔ معاملہ جہاں بہت ہی حساس اور گنجلک ہو وہاں ٹھوس معلومات فقط معدودے چند افراد کو میسر ہوتی ہیں جن کا اس معاملے سے براہِ راست تعلق ہوتا ہے۔ بسااوقات صدر اور وزیر اعظم بھی چند معاملات کی تفصیلات کے بارے میں قطعاََ بے خبر ہوتے ہیں۔اگر وہ اس ضمن میں سوال اٹھائیں تو انہیں جاننے کی ضرورت کی بنیاد پر اعتماد میں لے لیا جاتا ہے۔معاملہ کی جزئیات مگر اس کے باوجود تفصیل سے نہیں بتائی جاتیں۔ ’’ڈیل یا ڈھیل‘‘ کے بارے میں پھیلی تازہ ترین افواہوں کے تناظر میں لہذا اپنے صحافیانہ تجربے کی بنا پر یہ اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ اس ضمن میں کم از کم میں جو کچھ بھی لکھوں گا محض قیاس آرائی ہوگی۔