وہ انتہائی لو پروفائل زندگی گزارتے ہیں اور نمودونمائش سے گریز کرتے ہیں، اس لئے کبھی شاہد خاقان کے بارے میں زیادہ سوچنے اور جاننے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ میاں نواز شریف کی کابینہ کے اہم وزیر تھے اور چونکہ میاں صاحب کی حکومت کے بارے میں میری رائے اچھی نہیں تھی، اس لئے میں انہیں بھی دیگر وزیروں کی طرح ایک وزیر سمجھتا رہا۔
اُنہیں قریب سے جاننے کا موقع گزشتہ انتخابات کے بعد ملا جب وہ اور اُن کی پارٹی زیر عتاب آئے اور میں اِس نتیجے تک پہنچا کہ ایک تو اُنہیں ہم لوگوں نے وہ توجہ نہیں دی جس کے وہ مستحق تھے اور دوسرا اُن کو پہچاننے میں ہم جیسے لوگوں نے غلطی کے ساتھ ساتھ دیر بھی کردی۔
کہنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ شاہد خاقان عباسی فرشتہ ہیں۔ ظاہر ہے وہ سیاستدان ہیں اور وہ بھی مسلم لیگی سیاستدان، یوں ان کی سیاست بھی اسی طرح مصلحتوں کی شکار رہی ہے جس طرح دیگر مسلم لیگیوں کی رہتی ہے لیکن کچھ حوالوں سے وہ باقیوں سے بہت مختلف نکلے۔
وہ اشرافیہ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سُسر فوجی جرنیل اور آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ والد بھی وزیر رہے۔ امریکہ سے پڑھ کے آئے ہیں۔ ائیر لائن کے مالک ہیں۔ یوں وہ چاہیں تو دوسرے سیاستدانوں کی طرح غرور کر سکتے ہیں لیکن غرور تو دور کی بات شرافت اور سادگی میں شاید ہی کوئی سیاستدان اُن کا ہم پلہ ہو۔
وہ میاں نواز شریف کے سامنے ہوں، آرمی چیف یا کسی جج کے سامنے یا پھر اپنے ملازم کے، ہمیشہ ان کا انداز ایک ہی رہتا ہے۔ ڈھنڈورا عمران خان صاحب نے پیٹا تھا کہ وہ وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے اور اسے یونیورسٹی میں تبدیل کریں گے تاہم آج بڑی خاموشی کے ساتھ اس وزیراعظم ہاؤس کو استعمال کرنے لگے ہیں جبکہ دوسری طرف شاہد خاقان عباسی نے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا تھا لیکن اس وزیراعظم ہاؤس میں ایک رات بھی نہیں گزاری۔ تاہم انہوں نے خود کبھی اس کا ذکر کیا اور نہ ان کے کسی میڈیا مینیجر نے اس کا ڈھنڈورا پیٹا۔
اُنہوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ پروٹوکول نہیں لیں گے لیکن جب وزیراعظم بنے تو سادگی کی منفرد روایات قائم کیں۔ وہ ہر روز صبح آٹھ بجے دو گاڑیوں (ایک گاڑی سیکورٹی کی ہوتی) میں اپنے ذاتی گھر سے دفتر جاتے اور رات کو واپس آجاتے۔ ان کے گھر آتے اور جاتے وقت کبھی ہم نے سڑک بند ہوتے دیکھی اور نہ کبھی ان کو ٹریفک اشارے کی خلاف ورزی کرتے دیکھا بلکہ کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی تھی کہ وزیراعظم کب آتے اور کب جاتے ہیں لیکن اس سادگی کا ذکر ہوتا تھا اور نہ اسے کیش کرانے کی کوشش کی گئی۔
میاں نواز شریف کا مسئلہ یہ تھا کہ فائل نہیں دیکھتے تھے لیکن شاہد خاقان عباسی کا کمال یہ تھا کہ ہر روز فائل ورک ختم کئے بغیر دفتر سے نہیں اٹھتے تھے۔ میاں صاحب کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کئی کئی ماہ تک کابینہ کا اجلاس نہیں بلاتے تھے لیکن شاہد خاقان باقاعدگی سے کابینہ کا اجلاس منعقد کرنے لگے۔
میاں صاحب پارلیمنٹ سے الرجک تھے اور کئی کئی ماہ تک وہاں نہیں جاتے تھے لیکن شاہد خاقان نے پارلیمنٹ کو یوسف رضا گیلانی کی طرح بھرپور وقت دیا۔ یہ سب خوبیاں اپنی جگہ لیکن اصل خوبی ان کی پارٹی اور قیادت کے ساتھ وفاداری کی خوبی ہے جو اس وقت اس ملک میں ناپید ہو چکی ہے۔
1999کی فوجی بغاوت کے بعد انہیں پی آئی اے کا چیئرمین ہونے کے ناتے میاں نواز شریف کے ساتھ دھر لیا گیا۔ تب بھی فوج میں ان کے لئے نرم گوشہ تھا اور ان سے ایک ہی مطالبہ کیا جاتا رہا کہ وہ میاں نواز شریف کو چھوڑ دیں لیکن وفاداری نبھاتے ہوئے شاہد خاقان آخری وقت تک میاں صاحب کے ساتھ کھڑے رہے۔
میاں صاحب اہل خانہ کے ساتھ سعودی عرب چلے گئے لیکن شاہد خاقان جیل میں پڑے رہے۔ رہائی کے بعد وہ کبھی ایک لمحے کے لئے بھی دیگر مسلم لیگیوں کی طرح یہ شکوہ زبان پر نہیں لائے کہ میاں صاحب ہمیں جیل میں چھوڑ کر خود باہر چلے گئے۔
گزشتہ انتخابات سے قبل ان کو آفر دی گئی تھی کہ اگر وہ میاں صاحب کا ساتھ چھوڑ دیں تو دوبارہ وزیراعظم بن سکتے ہیں لیکن انہوں نے وفاداری نبھا کر ایم این اے کی نشست سے بھی محروم ہونا گوارا کیا۔ وہ واحد مسلم لیگی تھے کہ جن کے بارے میں مقتدر حلقے نرم گوشہ رکھتے تھے اور انہیں یہی پیغام ملتا رہا کہ اگر وہ نواز شریف کی حمایت میں سرگرمی دکھانے کے بجائے لو پروفائل رہیں تو بھی انہیں نہیں چھیڑا جائے گا لیکن انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی اور روزانہ خود دعوت دیتے رہے کہ جس نے انہیں گرفتار کرنا ہے، آکر کر لے۔
صرف یہ نہیں کہ خود جیل اور صعوبتوں کا راستہ منتخب کیا بلکہ جب اندر گئے تو اپنے گفتار اور کردار سے ثابت کیا کہ وہ ایک بہادر انسان ہیں۔ کوئی سہولت طلب کی اور نہ اسپتال جانے کی کوشش کی۔ انہیں پروڈکشن آرڈر پر اسمبلی لانے کا پروگرام بنا تو ایک اصولی اور بہادر انسان کی طرح یہ مؤقف اپنایا کہ محسن داوڑ اور علی وزیر سمیت جب تک سب ایم این ایز کو اسمبلی میں نہیں لایا جاتا وہ اسمبلی نہیں آئیں گے۔
عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو نہ فریاد کرتے ہیں اور نہ اپنے لئے کسی سہولت کا مطالبہ۔ وکیل تک نہیں رکھا ہے اور جب پہلے دن جج کے سامنے پیش ہوئے تو ان سے کہا کہ جج صاحب بار بار کیا تکلیف کریں گے، ایک ساتھ 90 دن کا ریمانڈ دے دیجئے۔
مختصر الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاہد خاقان برا ہے یا اچھا لیکن ایک بات ثابت ہو گئی کہ نر کا بچہ ہے۔ ایک ایسے دور میں جب بہادری اور وفاداری کی صفات بالکل ناپید ہو گئی ہیں اور اسے جرم یا بے وقوفی کی علامت سمجھا جاتا ہے، شاہد خاقان عباسی کا یہ رویہ ان کے منفرد اور عظیم ہونے کی علامت ہے۔
یہی چند دانے ہیں جو کاندھوں پر بٹھانے کے مستحق ہیں لیکن افسوس کہ یہ ملک ایسے لوگوں کے پنجے میں آگیا ہے کہ جو بے شرم اور بے وفا لوگوں کو نوازتے ہیں اور بہادری یا اپنی قیادت سے وفاداری ان کے نزدیک ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے۔ پشتو میں کسی کی بہادری اور وفاداری کی تعریف کرنی ہو تو کہا جاتا ہے کہ فلاں نر کا بچہ ہے اور آج شاہد خاقان نے ہمیں یہ کہنے پر مجبور کیا کہ وہ ہیں بہر حال نر کا بچہ۔