نیویارک (ویب ڈیسک) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر دنوں یا ہفتوں کی لڑائی نہیں ہے ، یہ ایک لمبی لڑائی ہے جو ہم کوانسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر لڑنی پڑے گی ۔ تفصیلات کے مطابق نیویار ک میں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وزیر اعظم سے ایمنسٹی انٹر نیشنل کے جنرل سیکرٹری نے ملاقات کی اور ایمنسٹی انٹر نیشنل کو مقبوضہ کشمیر میں جو مشکلات درپیش ہیں ، اس سے وزیر اعظم عمران خان کو آگاہ کیا ۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کے جنرل سیکرٹری نے بتایا کہ ہمیں مقبوضہ کشمیر میں بے پناہ دقت ہورہی ہے اور ہم کو رسائی نہیں دی جارہی ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے کام کوسراہا۔ زلمے خلیل زاد نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور افغان امن عمل اور طالبان کے ساتھ ہونیوالی پیش رفت کے حوالے سے آگاہ کیا ۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکی سینیٹر لنزے گراہم نے بھی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ، سینیٹر لنزے ان چار سینیٹر میں شامل ہیں جن کی جانب سے صدرٹرمپ کوکشمیر کے حوالے سے خط لکھا گیا تھا ۔سینیٹر لنزے گراہم سے درخواست کی ہے کہ وہ کشمیر کی صورتحال کو اجاگر کرتے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج وزیر اعظم عمران خان آرسی آرسی کے عہدیداران سے بھی ملاقات کریں گے ، آر سی آرسی کو بھی مقبوضہ کشمیر میں کام نہیں کرنے دیا جارہا ،آر سی آرسی سے پوچھیں گے کہ مقبوضہ کشمیر میں صحت کی کیا صورتحال ہے ؟انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کشمیری رہنماﺅں سے بھی ملاقات کریں گے اور ان سے پوچھیں کہ ان کی کیا اطلاعات ہیں ؟انہوں نے کہا کہ یہ لڑائی دنوں یا ہفتوں کی لڑائی نہیں ہے ،یہ ایک لمبی لڑائی ہے جس کوہم نے انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر لڑنا ہے ، ہندوستان میں ایک بہت بڑا عنصر ہے جو سمجھتا ہے کہ مودی کا 5اگست کا اقدام عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے ۔ شاہ محمود قریشی کاکہنا تھا کہ ہیوسٹن میں مودی کا ایک جلسہ ہورہاہے اورجن لوگوں نے مودی کودعوت دی ہے ، وہ وہاں موجود ہیں لیکن منفرد چیز یہ ہے کہ ہزاروں پاکستانی ، کشمیری ، دیگر مسلمان ممالک کے شہری اور سکھ ہزاروں کی تعداد میں وہاں موجود ہیں اور مودی کے اقدامات کی مذمت کررہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اس لئے یہاں آئے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال عالمی برادری اور ٹرمپ کوبتائیں کہ حالات بہت نازک ہیں اور مودی کی حماقتوں سے حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے ، ہماری کوشش ہوگئی کہ ہم درخواست کریں کہ مذاکرات جلد از جلد شروع ہوں ، اگر مذاکرات جلد شروع نہ ہوئے تو تشدد میں اضافہ ہوسکتا ہے اور اس کے امکانات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان امن عمل کیلئے پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا ہے اور افغانوں کو بیٹھنا ہوگا ۔ زلمے خلیل زاد نے بھی پاکستان کے کردار کو سراہاہے اور تعریف کی ہے کہ اس سارے عمل میں پاکستان کا کردار بہت مثبت رہاہے ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی اور کشمیری بہت سرگرم نظر آرہے ہیں ، بہت سے لوگوں نے ازخود اجازت نامے لئے ہیں ، پاکستانیوں ، کشمیریوں اور دیگر اقوام کے لوگ جو انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں ان کی بہت بڑی تعداد کشمیریوں کے حق میں جمعہ کے روز احتجاج کرے گی ۔