اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) معروف صحافی صابر شاکر نے اپنے کالم “دھرنے کی سیاست اور تاریخ ” میں ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے دھرنے کے حوالے سے کہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری ماڈل ٹاؤن کے سانحہ کے متاثرین کے لیے انصاف لینے اور عمران خان انتخابات میں دھاندلی کا حساب کرنے آئے تھے۔ پاور پلئیرز نظارہ کر رہے تھے۔عمران خان نواز شریف سے علامہ طاہر القادری شہباز شریف سے استعفیٰ مانگ رہے تھے۔پارلیمان کی تمام جماعتیں بشمول اپوزیشن کی جماعتیں دھرنے کے مقابلے میں متحدہ ہو گئیں۔لاٹھی چارج ہوا ، گولیاں چلیں، لاشیں بھی گریں، پارلیمنٹ اور پی ٹی وی میں توڑ پھوڑ بھی ہوئی۔لیکن منجھے ہوئے سیاسی پنڈٹ ڈٹ گئے،جنرل راحیل شریف کو براہ راست آنا پڑا۔علامہ اور عمران خان کی ملاقات ہوتی ہے۔جنرل راحیل شریف کو علامہ طاہر القادری اقتدار سنبھالنے کا مشورہ دیتے ہیں۔جنرل راحیل شریف انکار کرتے ہیں اور ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج کرنے اور شہباز شریف کے استعفیٰ کی پیشکش کرتے ہیں۔لیکن بات نہیں بنتی ،مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں اور علامہ صاحب کو کچھ دنوں کے بعد دھرنا سمیٹنا پڑتا ہے۔عمران خان اور جنرل راحیل شریف کے مذاکرات ناکام ہوتے ہیں اور عمران خان دھرنا جاری رکھتے ہیں اور پھر سانحہ اے پی ایس کے بعد دھرنا ختم کر دیتے ہیں۔دونوں جماعتوں کو فوری طور پر کچھ نہیں ملتا تاہم حکومت کی بنیادیں ضرور ہل جاتی ہیں۔پاور پئلئیرز کی منقسم سوچ نے وقتی طور پر نواز حکومت کو بچا لیا۔لیکن دھرنا اپنے دور رس اثرات ضرور چھوڑ گیا۔جس کے آفٹر شاکس تاحال آ رہے ہیں۔صابر شاکر مزید لکھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے اب دھرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ن لیگ اور پیپلز پارٹی نومبر تک دھرنا موخر کرنے پر بضد ہیں۔شاہد ان کے پاس ایسی اطلاع ہے کہ نومبر کے آخری ہفتے سے پہلے کوئی ایک پلئیر غیر معمولی فیصلہ کر سکتا ہے۔اس اہم فیصلے اور اس اہم وقت کا انتظار کرنا چاہئیے۔لیکن مولانا کچھ سننے کو تیارر نہیں۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بہت سے فارمولے گردش کر رہے ہیں۔لیکن کوئی بھی حتمی شکل اختیار نہیں کر پا رہا۔