واشنگٹن (ویب ڈیسک) وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکہ ترکی کی جانب سے شام کے شمال مشرقی علاقوں میں مستقبل قریب میں کی جانے والی عسکری کارروائی میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔یہ اعلان اتوار کی شام وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے ذریعے کیا گیا ہے جو امریکی صدر ٹرمپ اور ترکی کے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ۔۔۔ صدر رجب طیب اردگان کے درمیان ایک کال کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ترک صدر اردوغان کئی ماہ سے شمالی شام میں موجود کرد فورسز کے خلاف عسکری کارروائی کرنے کی دھمکی دے رہے تھے۔ترکی کرد پیشمرگاہ (وائے پی جی) کو ایک دہشت گرد گروہ سمجھتا ہے اور اسے اپنی سرحد سے ہٹانا چاہتا ہے۔ یہ گروپ شام میں دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کے خلاف لڑائی میں امریکہ کے شانہ بشانہ حصہ لیتا رہا ہے۔وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ترکی دولتِ اسلامیہ کے ان جنگجو قیدیوں کے ذمہ داری بھی اٹھائے گا جنھیں گذشتہ دو برسوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں برس جنوری میں دھمکی دی تھی کہ اگر ترکی نے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد کرد فورسز پر حملہ کیا تو امریکہ ’ترکی کو معاشی طور تباہ‘ کر دے گا۔تاہم اتوار کو جاری کردہ اعلامیے میں کرد پیشمرگاہ کے حوالے سے خاموشی تھی جس نے ماضی میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے میں امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔اعلامیے کے مطابق ’امریکہ کی فوجیں اس عسکری کارروائی کا نہ تو ساتھ دیں گی اور نہ ہی اس میں حصہ لیں گی اور کیونکہ امریکی فورسز نے دولتِ اسلامیہ کی علاقائی خلافت کو شکست دے رکھی ہے اس لیے امریکی فورسز اس علاقے میں موجود نہیں ہوں گی۔‘’امریکی حکومت نے بار ہا فرانس، جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک کو دولتِ اسلامیہ کے ان جنگجوؤں کو واپس لینے کا کہا جن میں سے متعدد ان ہی ممالک سے آئے تھے تاہم انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا ہے۔’امریکہ ان جنگجوؤں کو متعدد برسوں کے لیے نہیں رکھ سکتا کیونکہ کہ امریکا کی عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے بھری جائے گی۔امریکی حکام کے مطابق دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ کے دوران تقریباً 2500 غیر ملکی جنگجوؤں کو پکڑا گیا تھا اور امریکہ چاہتا ہے کہ انھیں یورپ کے حوالے کیا جائے۔وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری سٹیفنی گرشم کا بیان کردوں کے مستقبل کے حوالے سے خاموش تھا۔تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ شمالی شام سے ہزار کے قریب فوجوں کا انخلا شروع کر دے گا۔ترک صدر کے آفس کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق دونوں ملکوں کے صدور نے اگلے ماہ واشنگٹن میں ملنے کی حامی بھری ہے تاکہ شمالی شام ایک ’محفوظ زون’ بنانے کے حوالے سے بات کی جا سکے۔ترکی چاہتا ہے کہ وہ 20 لاکھ شامی پناہ گزینوں کو اس زون میں منتقل کر دے۔ اس وقت ترکی میں تقریباً 36 لاکھ شامی باشندے مقیم ہیں۔اس اعلامیے کے مطابق صدر اردگان نے صدر ٹرمپ کو بتایا کہ انھیں ’امریکی فوج اور سکیورٹی بیوروکریسی کی دونوں ممالک کے درمیان اگست میں شام کی سرحد پر بفر زون کے قیام کے معاہدے کی تکمیل میں ناکامی‘ پر مایوسی ہوئی ہے۔خیال رہے کہ دسمبر میں صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوجوں کے انخلا کا اعلان کیا تھا تاہم انھیں کرد اتحادیوں کی جگہ ترک عسکری حملے کی حمایت پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس اعلان کے بعد امریکہ کے وزیرِ دفاع جم میٹس نے احتجاجً استعفیٰ دے دیا تھا اور اس وقت کے قومی سکیورٹی مشیر جان بولٹن کی جانب سے کردوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات بھی اٹھائے گئے تھے۔ترکی نے دو مرتبہ اس طرح کی عسکری کارروائی میں حصہ لیا ہے۔ پہلی مرتبہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف سنہ 2016 میں اور دوسری مرتبہ وائی پی جی کے خلاف سنہ 2018 میں تاکہ شامی باغی شمالی شام میں علاقے پر قبضہ کر سکیں۔ترکی وائی پی جی کو کردستان ورکرز پارٹی کی ایک شاخ سمجھتا ہے جس نے پچھلی تین دہائیوں سے ترکی میں کردش خود مختاری کے حوالے سے آواز اٹھائی ہے۔تاہم وائی پی جی نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔ماضی میں ترکی نے امریکا کو وائی پی جی کی حمایت کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔